اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) نے بینکوں کے جاریہ برے دور میں اپنے بچت کھاتوں کیلئے اقل ترین رقم کی شرط ختم کردی ہے۔ ایس بی آئی نے کم از کم اپنے ادارہ پر عوام کے بھروسہ کو برقرار رکھنے کی کوشش میں کئی اقدامات کئے ہیں۔ اس میں سیونگس اکاونٹس، فکسڈ ڈپازٹس وغیرہ پر شرح سود میں کمی کا سخت فیصلہ شامل ہے۔ جو کھاتہ دار یا بینکوں میں اپنا اصل سرمایہ مشغول کرکے سود پر انحصار کرنے والوں کو یقینا فوری طور پر ناراض کرے گا، مگر میری رائے میں یہ اس سے بہتر ہے کہ کوئی بینک دیوالیہ کا شکار ہوکر بند ہوجائے۔ 

 

نومبر 2016 میں احمقانہ یا پھر مجرمانہ ”نوٹ بندی“ سے لے کر تقریباً ساڑھے تین سال کے عرصے میں مودی حکومت نے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) سے معمول کے سرکاری و خانگی بینکوں کے بینکنگ سسٹم کی جو دُرگت بنائی ہے، اسے دیکھتے ہوئے مجھے حیرانی ہورہی ہے کہ آخر ایس بی آئی کو یہ تازہ دانشمندانہ اقدامات کرنے کی اجازت کیوں کر ملی؟ میرا مطلب، وزیراعظم وہی مودی جی ہیں، جو معیشت کو لگاتار بڑھارہے ہیں (مگر پیچھے کی طرف)، فینانس منسٹری میں کچھ نہیں بدلا، آر بی آئی کی قیادت بھی گزشتہ پندرہ ماہ سے وہی ہے یعنی شکتی کانت داس (آئی اے ایس) گورنر ہیں۔ پھر حکومت ہند کی زائد از 61% ملکیت والے ایس بی آئی نے یہ فیصلے کیسے کرلئے، جس سے میں سمجھتا ہوں عوام کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔ میں اس کیلئے چیئرمین 62 سالہ چیئرمین رجنیش کمار کو کریڈٹ دینا چاہتا ہوں۔

 

ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو شاید کہانی ہو مگر مجھے اس موقع پر موزوں معلوم ہورہی ہے۔ گزرے زمانے کے انصاف پسند سماج میں دو افراد کے درمیان ایک گھر کی خرید و فروخت کی معاملت طے ہوئی اور تکمیل پائی۔ چند روز میں خریدار کو خریدے ہوئے گھر میں کسی وجہ سے کھدائی پر خزانہ ملا۔ خریدار دوڑا دوڑا فروخت کنندہ سے رجوع ہوا اور کہنے لگا کہ برآمد شدہ خزانہ اسی کو لے لینا چاہئے کیونکہ خریدی کی معاملت گھر سے متعلق ہوئی، خزانہ کا تذکرہ نہیں ہوا۔ فروخت کنندہ بضد ہوا، کہنے لگا کہ نہیں، گھر کی فروخت پوری زمین کے ساتھ ہوئی، صرف سطح پر قائم ڈھانچے کی نہیں۔ لہٰذا، زمین سے برآمد خزانہ بھی تمھارا ہوا۔ دونوں نے مل کر معاملہ متعلقہ حاکم سے رجوع کیا، جس کو معلوم ہوا کہ دونوں میں سے ایک کے پاس جوان بیٹا اور دیگر کے پاس جوان بیٹی ہے۔ حاکم نے دونوں کو کامیاب ترغیب دی کہ آپس میں سمدھی بن جاو اور خزانہ نئے جوڑے کی ملکیت میں دے دو۔ اس طرح معاملہ بہت ہی خوشگوار انداز میں حل ہوگیا۔ 

 

اس واقعہ کو یہاں تحریر میں لانے کا مقصد محض یہ ہے کہ وہ بھی کیا انصاف پسند اور حلال مال کو پسند کرنے والے لوگ تھے؟ آج، ہم کہاں پہنچ گئے ہیں۔ اب معیارِ سماج و انسانی مزاج، حلال و حرام ایسا ہوگیا ہے کہ دو چار ہزار روپئے کی رشوت ہندوستانی شہری کو دفتر سے جیل پہنچا دیتی ہے، اس کا کوریج کرتے ہوئے میڈیا بھی پھولے نہیں سماتا۔ مگر معاشی جرم کی رقم کے صفر (0) بڑھ جائیں، جیسے 9000,00,00,000 (نو ہزار کروڑ) روپئے تو ’مجرم‘ کو ’عزت‘ سے بیرون ملک جانے میں خود حکومتیں راست اور بالواسطہ مدد کرتی ہیں۔ اس کے بعد کیا کہنے۔ عیش ہی عیش۔ ہاں! ’مجرم‘ کو اتنا تو ضرور کرنا پڑے گا کہ اپنے ’اختیار کردہ ملک‘ کی عدالتوں میں مہینہ دو مہینے میں حاضری دیتے رہے۔

 

بہرحال، ایس بی آئی اب ملک کے بینکنگ سسٹم کی بچی کچھی شان ہے۔ کم از کم اسے یس بینک و دیگر کی طرح دیوالیہ اور آندھرا بینک و دیگر کی طرح ’انضمام‘ کی کراری ضرب سے بچانا ضروری ہے۔ ایس بی آئی کا دائرہ کار عالمگیر ہے۔ سال 1806 میں قائم مگر 1955 سے ’اسٹیٹ بینک آف انڈیا‘ کے نام ایس بی آئی 22,010 مقامات سے کام کرتا ہے اور اس کے 257,252 ملازمین (بلحاظ مارچ 2019) ہیں۔ گزشتہ مالی سال اس کے جملہ اثاثہ جات بڑھتے ہوئے تقریباً 37 ٹریلین روپئے (520 بلین ڈالر) ہوچکے تھے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: