شوگر یا ذیابیطس کا مرض کبھی ادھیڑ عمر کے بعد لاحق ہوا کرتا تھا مگر آج کل یہ کم عمری سے ہی دائمی روگ بنتا جارہا ہے۔ نہ صرف عالمی سطح پر شوگر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ ہمارے ملک ہندوستان میں تو یہ کچھ زیادہ ہی زور پکڑ رہا ہے۔ گزشتہ روز عالمی یوم ذیابیطس کے موقع پر انٹرنیشنل ڈیابٹیس فاونڈیشن ۔ ڈیابیٹس اٹلس نے واضح کیا ہے کہ ہندوستان کو ذیابیطس پر قابو پانے کیلئے اپنی حکمت عملی اور منصوبوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ ورنہ صورتحال دھماکو رخ اختیار کرجائے گی۔


ایک رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ دنیا میں شوگر سے متاثرہ 6 افراد میں سے ایک کا تعلق انڈیا سے ہے۔ اس طرح شوگر کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے ٹاپ 10 ملکوں میں ہندوستان دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ ہندوستان میں ایک اندازہ کے مطابق شوگر کے 77 ملین مریض ہیں۔ اس فہرست میں چین 116 ملین مریضوں کے ساتھ پہلے مقام پر ہے۔ آئی ڈی ایف ڈیابیٹس اٹلس کے نویں ایڈیشن میں انڈیا کے تعلق سے کہا گیا ہے کہ آئندہ 25 برسوں تک وہ دوسرے نمبر پر ہی رہے گا اور اس دوران شوگر کے مریض ہندوستانی کی تعداد 134 ملین ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں میں جیسے بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور ماریشس میں بھی شوگر کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شوگر کے مریضوں کے جو اعداد و شمار بتائے گئے ہیں وہ 20-79 سال کی عمر والے مریض ہیں۔ چین اور ہندوستان کے بعد امریکا تیسرے ، پاکستان چوتھے اور برازیل پانچویں مقام پر ہے۔ عالمی سطح پر شوگر کے مریضوں کی تعداد 463 بتائی جاتی ہے۔


تحقیق سے معلوم ہوا کہ ذیابیطس کے مرض کا راست تعلق طرز زندگی سے ہے۔ آرام پسندی، پرتعیش زندگی، کسرت سے اجتناب، چہل قدمی سے گریز اور کھانے پینے کی خراب عادتوں کے نتیجے میں لوگ شوگر سے متاثر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں شوگر کا علاج مہنگا ہوجائے گا اور تمام مریض اس کے متحمل نہیں ہوں گے۔ شوگر کے نتیجے میں بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین سبھی صحت کی کئی پیچیدگیوں کا شکار ہورہے ہیں۔ شوگر انسان کے اعضائے رئیسہ کو متاثر کرتی ہے۔ جیسے بینائی متاثر ہوتی ہے، بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا ہے، گردوں پر اثر پڑتا ہے۔ جنسی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 


اگر لوگ یومیہ 30 تا 40 منٹ کی چہل قدمی کی عادت ڈال لیں تو پھر وہ نہ صرف شوگر بلکہ بلڈ پریشر موٹاپا جیسی بیماریوں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں یا ان بیماریوں کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ آج کل لوگوں میں آرام طلبی بڑھ گئی ہے، جس کا خمیازہ ان کو شوگر اور موٹاپا جیسی بیماریوں کی شکل میں بھگتنا پڑرہا ہے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: