معاشی بدحالی، سیاسی مسائل، قانونی کشمکش، اور بدترین فرقہ وارانہ صورتحال سے دوچار بھارت کیلئے ”مصیبت پر مصیبت“ کے مصداق مہلک وبائی مرض کوروناوائرس سنگین مسئلہ بنتے جانے کا اندیشہ ہے۔ چین میں جہاں شہر ووہان سے یہ وبائی مرض پھیلنا شروع ہوا، اور اب تک دنیا کے ایک تہائی ملکوں کو لپیٹ میں لے چکا ہے، اس سے تنہا پڑوسی ملک میں تقریباً 3,000 اموات ہوچکی ہیں، حالانکہ چین چند ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے۔ اس کے باوجود وہ کوروناوائرس کی روک تھام میں بروقت اقدامات سے قاصر رہا ہے۔ اس معاملے میں چینیوں کے کھانے پینے کی عادتوں کا بڑا دخل ہوسکتا ہے۔ بھارتیوں کا کھانا پینا چینیوں سے بہت مختلف ہے، جو کوروناوائرس کے معاملے میں اچھا فرق ثابت ہوسکتا ہے۔

اب جبکہ ہندوستان بھی کوروناوائرس کے متاثرہ ملکوں میں شامل ہوچکا ہے، ہماری مرکزی اور ریاستی حکومتیں اگر اس وبائی مرض کی روک تھام کے خاطرخواہ اقدامات کرلیں تو میرے خیال میں کارنامہ ہوگا۔ چینی لوگ چوہے، سانپ اور نہ جانے کیا کیا کھا جاتے ہیں۔ کوروناوائرس پیدا ہونے میں یہ بڑی وجہ ہے۔ دیگر نمایاں وجہ صاف صفائی کی ہے۔ اگر آپ کھانے پینے میں حلال اور احسن اشیاءاستعمال کریں، نیز اپنے بدن تو صاف ستھرا رکھنے کی عادت ڈال لیں تو کوئی بھی وائرس سے متاثر ہونے کا امکان کم سے کم کرسکتے ہیں۔

 

سبھی قارئین کرام جانتے ہیں کہ انڈیا ترقی یافتہ ملک نہیں۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے پانچ ’ویٹو پاور‘ کے حامل ممالک امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ کے بشمول دیگر ترقی یافتہ ملکوں نے کورونا وائرس کے آگے گھٹنے ٹیک رکھے ہیں۔ مسجد الحرام، مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی ، مدینہ منورہ کو سعودی حکام کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے بھرپور جتن کررہے ہیں۔ وہاں غیرمعمولی صاف صفائی کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں، یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ساری دنیا والوں کیلئے مثال ہونا چاہئے۔ موجودہ طور پر کورونا وائرس ہو کہ آنے والے وقت کا کوئی اور وائرس.... ہر صورت میں تدارک کیلئے صاف صفائی بے حد ضروری ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ”پاکی آدھا ایمان ہے“۔ 

 

وائرس نہایت چھوٹی جسامت (قطر کے اعتبار سے دیکھیں تو 20 تا 300 نینو میٹر) کا حامل، بدن کیلئے بے فیض و سست، وبائی اثر والا مادہ ہوتا ہے۔ وہ جس بدن میں گھستا ہے وہاں کے خلیوں کے اندرون مشابہ اشکال میں بڑھتا جاتا ہے۔ کوروناوائرسیس ایسے وائرسیس کا گروپ ہے جو دودھ پلانے والے جانوروں اور پرندوں میں بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ انسانوں میں کورونا وائرسیس کے سبب تنفسی نالی کا انفکشن ہوتا ہے جو مختلف نوعیت کے اثرات لاتا ہے جیسے سردی۔ لیکن اس انفکشن کے انوکھے اقسام جیسے سارس، میئرس ، اور کووڈ ۔ 19 (جاریہ وبائی مرض) مہلک ہوسکتے ہیں۔ 

 

وبائی مرض ’کوروناوائرس‘ کا نام لاطینی لفظ ’کورونا‘ سے اخذ کیا گیا، جس کے معنی ’کراون‘ (تاج) کے ہوتے ہیں۔ یہ نام اس وائرس کی ظاہری شکل کو دیکھ کر رکھا گیا ہے۔ کوروناوائرسیس پہلی مرتبہ 1960 کے دہے میں دریافت کئے گئے۔ ابتدائی اقسام میں چکن کو متاثر کرنے والا وبائی ’برانکیٹس وائرس‘ شامل ہے۔ کسی خلیہ میں داخلے کے بعد وائرس کا ذرہ بے خول ہوکر اس کا ’جینوم‘ (کروموزوم کا مکمل جوڑ) خلیہ کے ’سائٹوپلازم‘ (مایہ حیات) میں گھس جاتا ہے۔ اس کے ساتھ تمام تر وبائی مسائل شروع ہوتے ہیں۔ انسانوں میں اس وائرس کی منتقلی بنیادی طور پر قریبی ربط کے ذریعے ہوتی ہے۔ تنفسی نالی سے چھینک اور کھانسی کے سبب نکلنے والے ہلکے قطرات بھی مضر ہوسکتے ہیں۔

 

ہم گلوبل ولیج یا عالمی گاوں میں جی رہے ہیں۔ اس کے جہاں بے شمار فائدے ہیں، وہیں بہت نقصانات بھی ہیں۔ چینی شہر ’ووہان‘ سے پھیلا موجودہ کوروناوائرس بمشکل تین ماہ میں زائد از 70 ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ پڑوسی کی حیثیت سے بھارت جیسے بڑے دیش کا بچ کر رہنا ممکن نہیں تھا۔ میں سمجھتا ہوں ہمارا ملک دیر سے متاثر ہوا ہے۔ خوش قسمتی سے تادم تحریر کوئی بھارتی اس وائرس کا شکار نہیں ہوا ہے۔ چین میں لگ بھگ 3,000 کے بشمول دنیا بھر میں 3,500 اموات ہوچکی ہیں۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: