وزیراعظم مودی جب تک چیف منسٹر گجرات رہے، بقیہ ملک کو بڑی حد تک غلط تاثر رہا کہ بی جے پی لیڈر کو اچھی حکمرانی آتی ہے، شاید اسی لئے گجرات ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ 2002 کے گجرات فسادات کو محض ایک استثنائی واقعہ سمجھا گیا کہ اس کی مدد سے ریاست میں بی جے پی اقتدار کو مضبوط کیا گیا ہے۔ تاہم، چیف منسٹر مودی کی حکمرانی کی صلاحیت اور گجرات کی ترقی کے بارے میں عام بھارتیوں کو کچھ زیادہ شکوک و شبہات نہیں تھے۔

 

چیف منسٹر مودی جب وزیراعظم بنے، تب چند مہینوں میں ہی نظر آنے لگا کہ بی جے پی اور مودی کو حکومت چلانا اور ملک چلانا کس قدر آتا ہے؟ وہ تو بس ہندوتوا سے متعلق موضوعات کے بل بوتے پر اقتدار سے چمٹے رہنا جانتے ہیں۔ انھیں ہندو، مسلمان اور فرقہ پرستی کے سوا کچھ سیاست نہیں آتی۔ وزیراعظم مودی کی پہلی میعاد لنچنگ، گائے و بیف، لوو جہاد، گھر واپسی جیسے مسائل سے بھری رہی۔ اس کے بعد 2019 جنرل الیکشن کا موقع آیا تو ’مشکوک‘ پلواما حملہ، پھر بالاکوٹ (پاکستان مقبوضہ کشمیر) میں فضائی حملے وغیرہ کے ذریعے قومی سلامتی اور قوم پرستی کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے ووٹروں کو گمراہ کیا گیا۔ ’کمزور و سہمی‘ ہوئی اپوزیشن کا بھی برسراقتدار بی جے پی کو فائدہ ہوا اور اسے دوبارہ مزید تقریباً دو درجن نشستوں کے اضافے کے ساتھ دوسری میعاد حاصل ہوگئی۔

 

مودی حکومت کی پہلی میعاد میں لنچنگ، نوٹ بندی اور ’ناقص‘ جی ایس ٹی کے ساتھ پانچ سال گزر گئے۔ ہندوستان کی معیشت اور بین الاقوامی سطح پر اس ساکھ اتنی متاثر نہیں ہوئی جتنی دوسری میعاد میں امیت شاہ کو وزیر داخلہ بنانے کے نتیجے میں برا حال ہوا ہے۔ مودی، شاہ حکومت نے نئی میعاد کے بمشکل چھ ماہ میں ہی پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر احمقانہ قانون سازی کے ذریعے مرکزی حکومت کو اندرون و بیرون ملک مذاق کا موضوع بنا دیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) 2019 کے خلاف یو این ہیومن رائٹس کمیشن کا سپریم کورٹ سے رجوع ہونا حکومت ہند کیلئے باعث شرم ہے۔

 

مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم مودی اور ان کی حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں۔ ان کی حس بھی کچھ مختلف ہے۔ وزیراعظم سے جب کہا گیا کہ سی اے اے جیسے قوانین پر عوام انھیں گالیاں دے رہے ہیں تو ان کا جواب رہا کہ وہ بیس سال سے گالیاں سنتے سنتے ”گالی پروف“ ہوگئے ہیں۔ جب کہا گیا کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے تو وہ سڑکوں پر لاٹھیوں کے ساتھ نکل آئیں گے تو ان کا جواب رہا کہ وہ ”لاٹھی پروف“ بھی بننے کیلئے یوگا کی مشق میں اضافہ کردیں گے۔

 

آزاد ہند کی تاریخ میں ایسا کوئی وزیراعظم نہیں ہوا جو اتنا بے حس ہو، اور لگ بھگ ہر معاملہ میں سیاسی شعبدہ بازی کیلئے تیار رہتا ہو۔ اب مودی جی نے نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ وہ سوشل میڈیا چھوڑ دیں گے اور اپنے ٹوئٹر، فیس بک، اِنسٹاگرام جیسے اکاونٹس سے دستبردار ہوجائیں گے۔ اگلے روز انھوں نے اس معاملے میں ایک اور پہلو کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اکاونٹس سے یوم خواتین (8 مارچ) کے موقع پر لیڈیز کے حق میں دستبردار ہوجائیں گے۔

 

بھلا بتائیے۔ ملک کو خراب معیشت، سی اے اے، این پی آر، این آر سی اور کوروناوائرس جیسے سنگین معاشی، شناختی، سیاسی و طبی مسائل کا سامنا ہے اور ملک کا سربراہ سماجی رابطے کے ذرائع ابلاغ کی باتوں میں مگن ہے۔ وزیراعظم کو کس نے کہا کہ سوشل میڈیا چھوڑ دیں، ملک کی حالت سدھر جائے گی؟ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے اِس مرتبہ بہت مناسب ردعمل ظاہر کیا کہ مودی جی۔ نفرت کو ترک کیجئے، سوشل میڈیا کو نہیں۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے بھی درست کہا کہ مودی سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔

 

وزیراعظم مودی وقفہ وقفہ سے خواتین کے تعلق سے فکرمندی جتلاتے ہیں۔ وہ کس قدر دوغلی پالیسی پر عمل کرتے ہیں، اس کا اندازہ سب سے پہلے خود ان کی اپنی شریک حیات جشودا بین سے ناانصافی سے ہوجاتا ہے۔ انھوں نے تقریباً پچاس سال قبل جشودا بین سے شادی کی اور آج تک ان سے دور رہ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ مودی جی اور جشودا بین میں طلاق نہیں ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے نریندر مودی نے کبھی اپنی بیوی سے انصاف نہیں کیا۔ وزیراعظم مودی نے مسلم خواتین کی فکر کا اظہار کرتے ہوئے تین طلاق قانون لایا، لیکن اب وہی مسلم خواتین کو سی اے اے، این پی آر، این آر سی کے ذریعے بے مملکت کردینا چاہتے ہیں۔ اب اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس سے لیڈیز کے حق میں دستبرداری سے وزیراعظم مودی کا کیامطلب ہے، وہی بہتر جانتے ہیں؟
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: