طنز و مزاح یا کامیڈی پر مبنی ہندی فلمیں ماضی بعید میں بھی بنتی رہی ہیں جیسے 1958 کی فلم ’چلتی کا نام گاڑی‘ جس میں اشوک کمار، کشور کمار، انوپ کمار اور مدھو بالا کے نمایاں کردار تھے۔ اس فلم نے اپنے دور میں ناظرین کو خوب محظوظ کیا۔ بالخصوص مدھو بالا کے حسن اور کشور کمار ، انوپ کمار کی کامیڈی نے فلم کو زبردست کامیابی دلائی۔ یہ فلم آج بھی دیکھیں تو بڑی چھوٹی سب عمر کے فلم بین یقینا محظوظ ہوتے ہیں؛ اسی طرح 1968 کی فلم ’پڑوسن‘ کا بھی جواب نہیں۔ اس میں سنیل دت، سائرہ بانو، محمود، کشورکمار، اوم پرکاش وغیرہ نے یادگار رول ادا کئے۔ یہ فلم بھی چلتی کا نام گاڑی کی طرح ’ٹوٹل کامیڈی‘ کہی جاسکتی ہے۔ ایسا نہیں کہ کامیڈی فلم کے سوا دیگر طرز کی فلموں میں کامیڈی نہیں ہوتی تھی یا نہیں ہوتی ہے۔ دراصل ماضی میں بھی کوئی ایک اسپیشلسٹ کامیڈین رہا کرتا تھا، اور یہ رواج اب بھی ہے، جیسے جانی واکر، جگدیپ، محمود، راجیندر ناتھ، جانی لیور، قادر خان، شکتی کپور، وغیرہ۔ مگر مکمل کامیڈی فلم کے لگ بھگ سبھی کردار فلم بینوں کو ہنسنے پر مجبور کرتے ہیں۔ 


آج کل کی بھاگ دوڑ والی زندگی، ہر شعبے میں روز بروز بڑھتی مسابقت اور معاشی مسائل نے کم از کم ہندوستان میں تو عام شہریوں کو مفت میں تناو دے رکھا ہے۔ آدمی بے روزگار ہے تو پریشان ہے، برسرروزگار ہے تو تناو ہے، عورت گھر گرہستی سنبھالتی ہے تو ہفتے کے ساتوں دن کا تناو ہے، اگر کوئی جاب کرتی ہے تو تناو کے ساتھ اپنی عزت نفس کو بچائے رکھنے کی فکرمندی رہتی ہے۔ بہرحال، فکر و پریشانی اور ذہنی تناو سے شاید ہی کوئی بالغ و عاقل انسان بچا ہوا ہے۔ یہ بات کسی بھی علاقہ اور کسی بھی مذہب سے قطع نظر ہے۔ 


اب اس طرح کے تناو کو دور کرنے کیلئے مختلف لوگ مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ کوئی کٹر مذہبی فرد ہو تو عین ممکن ہے وہ مذہبی طریقے سے تناو دور کرنے کی کوشش کرے گا یا کرے گی۔ ورنہ زیادہ تر لوگ کم از کم کام کے ہفتے کے آخر میں یعنی ویک اینڈ پر خود کو ہلکی پھلکی تفریح میں مشغول کرتے ہوئے ہفتے بھر کی ذہنی تھکان دور کرنا چاہتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ اپنے گھروں کے قریب ہلکی پھلکی آوٹنگ کیلئے چلے جاتے ہیں، بعض لوگ لانگ ڈرائیو یا شارٹ ڈرائیو کیلئے نکل پڑتے ہیں۔ تاہم، بڑی تعداد میں لوگ ہلکی پھلکی بالخصوص کامیڈی فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں، کیوں کہ ’لافٹر تھراپی‘ کی اپنی افادیت ہے۔ انسان کی اچھی صحت کیلئے ہنسنا مسکرانا بھی ضروری ہے۔


عام ہندوستانی شہریوں کیلئے جن کی تعداد کا جملہ ملکی آبادی میں بہت بڑا حصہ ہے، کامیڈی فلمیں ہر دور میں ذہنی تناو دور کرنے کا بڑا ذریعہ رہی ہیں۔ چنانچہ تناو بھری زندگی کے معاملے بگڑتے دور کے اعتبار سے ایسی فلموں کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے اور ایسی فلمیں ماضی بعید سے کہیں زیادہ حالیہ دو تین دہوں میں بنائی گئی ہیں۔ چند یادگار اور نہایت کامیاب فلموں پر نظر ڈالتے ہیں۔


انداز اپنا اپنا (پریش راول، عامر خان، سلمان خان، روینہ ٹنڈن، کرشمہ کپور۔ 1994)، چپکے چپکے (دھرمیندر، اوم پرکاش، امیتابھ بچن، شرمیلا ٹیگور، جیہ بھادری، کیشو مکرجی۔ 1975) ، امول پالیکر، اتپل دت، دینا پاٹھک، بندیا گوسوامی کی فلم ’گول مال‘ (1979) ، سنجے دت، ارشد وارثی، بومن ایرانی کی منا بھائی ایم بی بی ایس(2003) ، راجہ بابو (گووندا، قادر خان، شکتی کپور ، کرشمہ کپور۔ 1994)، لگے رہو منا بھائی (سنجے دت، ارشد وارثی، بومن ایرانی۔ 2006)، ہنگامہ (پریش راول، شوما آنند، آفتاب شیودسانی، اکشے کھنہ، ریمی سین، شکتی کپور، راجپال یادو، ٹیکو تلسانیا۔ 2003)، انگور (سنجیو کمار، دیون ورما۔ 1982)، جانے بھی دو یارو (نصیرالدین شاہ، روی باسوانی، ستیش شاہ، اوم پوری، پنکج کپور، نینا گپتا۔1983) ، دلہے راجہ (گووندا، قادر خان، جانی لیور، روینہ ٹنڈن۔ 1998)، 3 ایڈیٹس (عامر خان، آر مادھون، شرمن جوشی، بومن ایرانی۔2009)، ہیرا پھیری (پریش راول، اکشے کمار، سنیل شٹی، تبو، اوم پوری۔ 2000)، آوارہ پاگل دیوانہ (پریش راول، اکشے کمار، سنیل شٹی، جانی لیور۔ 2002) ، دیوانہ مستانہ (گووندا، انیل کپور ۔ 1997)، پریش راول اور اکشے کمار کی ’او ایم جی ۔ اوہ مائی گاڈ‘ (2012)، عامر خان کی فلم ’پی کے‘ ( 2014 )، حسینہ مان جائے گی (گووندا، سنجے دت۔ 1999)، جوڑی نمبر 1 (گووندا، سنجے دت۔ 2001) ، کمل ہاسن کی چاچی 420 (1997 )۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: