چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے جاریہ اسمبلی بجٹ سیشن کے دوران ایوان میں ریاستی سرکاری زبان تلگو میں خطاب کرتے ہوئے کہیں راست تو کہیں بالواسطہ سی اے اے، این پی آر، این آر سی کو نشانہ بنایا اور مرکزی حکومت کے اقدام پر تنقید میں دلچسپ ریمارک کیا کہ خود ان کے پاس ’برتھ سرٹفکیٹ‘ نہیں ہے، وہ اپنے آنجہانی والد کا صداقت نامہ پیدائش کہاں سے لائیں گے؟ مجھے اعتراف ہے 66 سالہ سیاستدان تقریر اچھی کرتے ہیں، وہ خاصی دیر تک سامعین کو بوریت کا شکار ہونے نہیں دیتے۔ میری جانکاری کے مطابق کے سی آر تحریر کے معاملے میں بھی خاصے نمایاں لیڈر ہیں۔ اور یہ جگ ظاہر ہے کہ سیاسی چالوں کے تو وہ ماہر ہیں، جس کا ثبوت ان کا شروع سے آج تک ’پولیٹیکل کریئر‘ ہے۔

 

ہفتہ 7 مارچ سے کے سی آر کو ریاست میں مائنارٹیز کے بہت بڑے طبقہ سے داد و تحسین مل رہی ہے کہ آخر انھوں نے سرکاری ایوان میں کھل کر سی اے اے ، این پی آر کیخلاف لب کشائی کی ہے۔ میرا تعلق بھی مائنارٹی کمیونٹی سے ہے لیکن ابھی میں اس طبقہ کا حصہ نہیں ہوں جو قبل از وقت چیف منسٹر سے اظہار تشکر میں جٹ گیا ہے، ایسے جیسا کہ انھوں نے محض تقریر کے ذریعے ”ہم“ پر کوئی احسان کردیا؟ میرا ماننا ہے کہ زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوتا، جب تک گورنمنٹ آرڈر (جی او) جاری نہ ہو، جب تک ٹھوس تحریر کے ساتھ کسی بات یا قرارداد کو منظوری حاصل نہ ہو، میرے لئے مطمئن ہونے یا اظہار تشکر کرنے کا کوئی جواز نہیں۔

 

صدر مجلس اسد اویسی کی قیادت میں تقریباً تین درجن شخصیتوں نے ہفتوں قبل چیف منسٹر کے سی آر سے ملاقات کرتے ہوئے نمائندگی کی تھی کہ مرکز کی مودی۔ شاہ حکومت کی طرف سے سی اے اے، این پی آر، این آر سی جیسے کھلے طور پر متعصبانہ اقدامات کے خلاف چیف منسٹر پی وجین کی (غیربی جے پی) حکومت کیرالا کی طرح سخت موقف اختیار کیا جائے، کیونکہ ”ہم“ تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت کو ”سکیولر حکومت“ سمجھتے ہیں۔ اس لئے کے سی آر کی طرف سے چیف منسٹر وجین کی طرح اقدام ضرور ہونا چاہئے۔ تب چیف منسٹر تلنگانہ نے وفد کو گھنٹوں وقت دینے کے بعد تیقن دیا تھا کہ وہ دو روز میں اپنے موقف کا اعلان کریں گے۔

 

دو دن کیا، دو ہفتے اور پھر مزید دو ہفتے گزرنے کے بعد ریاستی بلدی انتخابات میں ٹی آر ایس کی شاندار کامیابی کے موقع پر آخرکار چیف منسٹر نے اعلان کیا کہ وہ سی اے اے کیخلاف اسمبلی میں قرارداد منظور کریں گے، جو کیرالا، پنجاب، راجستھان، مغربی بنگال، پڈوچیری، مدھیہ پردیش پہلے ہی کرچکے ہیں۔ کیرالا واحد ریاست ہے جس نے سی اے اے کی منظوری کے اندرون تین ہفتے اسپیشل اسمبلی سیشن میں نئے قانون شہریت کیخلاف سب سے پہلے قرارداد منظور کی۔ پھر مزید اندرون تین ہفتے چیف منسٹر وجین زیرقیادت لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) نے کیرالا میں این پی آر پر عمل میں تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مرکزی حکومت کو باضابطہ واقف بھی کرا دیا۔ کیرالا اس اعتبار سے بھی واحد ریاست ہے جہاں سی اے اے، این پی آر، این آر سی مسئلے پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کا یکساں موقف ہے۔

 

سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) پارلیمنٹ سے باقاعدہ منظورہ اور صدارتی دستخط شدہ قانون ہے۔ این پی آر (قومی آبادی رجسٹر) فضول سرگرمی ہے جو راست طور پر نہایت پیچیدہ این آر سی (قومی رجسٹر شہریان) سے مربوط ہے۔ این پی آر ، این آر سی کوئی قوانین ہیں۔ یعنی این پی آر اور اس سے مربوط این آر سی کا اصل قانون شہریت 1955 میں کہیں تذکرہ نہیں ہے۔ اسی لئے میں اسے فضول سرگرمی اور سیاسی و فرقہ وارانہ مقصد براری مانتا ہوں، جس کی 21 ویں صدی کے ایسے بھارت میں ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی، جو ”وشوا گرو“ (بڑی عالمی طاقت) بننے کا عزم رکھتا ہے۔

 

ٹی ایس ایس حکومت اور خصوصیت سے چیف منسٹر کے سی آر کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے بعض نمائندوں اور بعض گوشوں کو اعتماد میں لے کر پوری برادری کو ’بے وقوف‘ بنانے کی کوشش نہ کریں۔ اگر وہ واقعی سکیولر ہیں، ان میں واقعی چیف منسٹر وجین، چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی جیسا سیاسی حوصلہ ہے تو وہ وقت ضائع کئے بغیر تلنگانہ اسمبلی میں سی اے اے کیخلاف قرارداد منظور کرائیں اور این پی آر کے عمل کو ریاست میں روکنے کیلئے جی او جاری کریں۔ انھوں نے ہفتہ کی تقریر میں کہا کہ ”ہم کسی سے ڈرتے، گھبراتے نہیں ہیں“۔ میں آپ سے سو فیصدی متفق ہوں کہ ہمیں کسی سے ڈرنے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے بھی تلنگانہ حکومت اگر سی اے اے، این پی آر کیخلاف واقعی اقدام کرتی ہے تو وہ کوئی انوکھا کام نہیں ہوگا کیونکہ دو غیرکانگریسی اور چار کانگریسی حکومتیں یہ کام پہلے ہی کرچکی ہیں۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: