مہاراشٹرا میں 288 رکنی ریاستی قانون ساز اسمبلی ہے، اس ریاست میں ملک کی دوسری بڑی آبادی (زائد از 11.23 کروڑ) ہے، مغربی جزیرہ نما خطہ میں واقع ریاست کا رقبہ 3.07 لاکھ مربع کیلومیٹر ( 1.18 مربع میل ) سے زیادہ ہے۔ مہاراشٹرا کو دنیا کی دوسری سب سے زیادہ آبادی والے ذیلی قومی علاقہ کا درجہ حاصل ہے۔ اس مغربی ریاست میں گزشتہ 21 اکٹوبر کو ایک ہی مرحلے میں اسمبلی انتخابات منعقد کئے گئے اور 24 اکٹوبر کو نتائج کا اعلان کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ یکساں تواریخ کو شمالی ریاست ہریانہ کی 90 رکنی اسمبلی کیلئے بھی الیکشن کے انعقاد اور ریزلٹ کے اعلان کا عمل مکمل ہوا۔ 


اعداد و شمار کے ساتھ مذکورہ بالا جانکاری دینے کی وجہ مشرقی ہند کی ریاست جھارکھنڈ کی 81 رکنی اسمبلی کیلئے انتخابات کا اعلان ہے۔ جمعہ کو نئی دہلی میں چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ نے پریس کانفرنس کو بتایا کہ جھارکھنڈ اسمبلی الیکشن 30 نومبر سے 5 مرحلوں میں منعقد کیا جائے گا اور 23 ڈسمبر نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ جھارکھنڈ کے بارے میں کچھ اعداد و شمار پیش کرتا ہوں۔ اس کی آبادی 3.29 کروڑ اور ملک میں اس اعتبار سے وہ 14 ویں نمبر کی حامل ہے۔ جھارکھنڈ کا رقبہ ( 79.7 ہزار مربع کیلومیٹر یا 30.7 ہزار مربع میل) کے لحاظ سے ملک میں 15 واں نمبر ہے۔ 


جھارکھنڈ یا اس جیسی کسی بھی چھوٹی ریاست میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسمبلی انتخابات کو 5 مرحلوں میں منعقد کرایا جائے؟ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ ایسا کرنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ جیسے ہی الیکشن کمیشن کا یہ اعلان سامنے آیا، مجھے نہ صرف حیرانی ہوئی بلکہ حد درجہ مضحکہ خیز بھی معلوم ہوا۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ 2014 سے مرکز میں بی جے پی کو اقتدار ملنے کے بعد سے عاملہ، عدلیہ، مقننہ جیسے کلیدی شعبہ جات کے ساتھ ساتھ شاید ہی کوئی قومی ادارہ مرکزی حکومت کی مداخلت سے محفوظ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان پانچ سال میں متعدد عجیب و غریب اور مشکوک فیصلے کئے ہیں۔ یہ جھارکھنڈ اسمبلی الیکشن کا فیصلہ اسی فہرست میں جوڑا جاسکتا ہے۔


سرکاری سطح پر کوئی وضاحت نہیں کہ جھارکھنڈ کی 81 اسمبلی نشستوں پر چناو کیلئے 5 مراحل کیوں درکار ہیں؟ اس الیکشن کا اعلان یکم نومبر کو کیا گیا، اور پولنگ کے بعد نتائج کا اعلان 23 ڈسمبر کو ہوگا۔ یعنی بی جے پی زیراقتدار چھوٹی سی ریاست کے اسمبلی چناو کے سلسلے میں 53 روزہ مدت لگ رہی ہے۔ کیا یہ تعجب خیز نہیں ہے۔ میرے ذہن میں جو خیالات آرہے ہیں، ان پر ہنسی بھی آسکتی ہے لیکن یہ غور طلب بھی ضرور ہوں گے۔ عملاً متعدد مرکزی قائدین اور مرکزی کابینہ ریاستی انتخابات میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے ایسا لگتا ہے کہ ہر چھوٹی بڑی ریاست کے اسمبلی الیکشن میں قومی سطح کے سارے اہم سرکاری کام کاج چھوڑ کر خود کو انتخابی مہم میں جھونک دینے کا ’شپت‘ لے رکھا ہے، وہ ہر الیکشن کے وقت مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کا انتخابی نشان (کنول) اپنے سینے پر لگا کر ’وزیراعظم بی جے پی‘ کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کیا جھارکھنڈ الیکشن کیلئے پانچ مرحلے وزیراعظم، مرکزی وزراءاور دیگر بڑے قائدین کی سہولت کیلئے رکھے ہیں کہ اگر پی ایم کا پہلے سے کوئی بیرونی دورہ طے ہے تو اس میں کوئی خلل نہ پڑے پائے؟ اسی طرح مرکزی وزراءاور دیگر قائدین بھی سہولت سے انتخابی مہم میں شریک ہوسکیں؟

---

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: