شیوسینا، این سی پی اور کانگریس نے اپنے مشترکہ اقل ترین پروگرام کو قطعیت دیتے ہوئے مہاراشٹرا میں اقتدار کیلئے اپنی دعوے داری پیش کرنے کی راہ ہموار کرلی ہے۔ تینوں پارٹیوں نے گزشتہ 48 گھنٹوں میں کئی بار مشاورت کے بعد مسودہ مشترکہ اقل ترین پروگرام ( سی ایم پی ) کو قطعیت دی ہے۔ مگر فی الحال ریاست میں صدر راج لاگو ہے۔ یعنی جب تک ریاستی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی سفارش پر مرکز کی مودی حکومت صدر راج ہٹانے کا فیصلہ نہیں کرے گی، صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کی طرف سے صدر راج ختم کرنے کا اقدام بھی نہیں ہوگا۔


میرے خیال میں ادھو ٹھاکرے زیرقیادت شیوسینا نے حکومت سازی کا زرین موقع گنوایا جب وہ این سی پی اور کانگریس کے مکتوبات تائید کے ساتھ باضابطہ عددی طاقت کے ثبوت کے بغیر گورنر کوشیاری سے ملاقات کیلئے چلے گئے اور وہاں جاکر مزید تین دنوں کا وقت مانگا تاکہ درکار عددی طاقت کا ثبوت پیش کیا جائے۔ گزشتہ پانچ ، ساڑھے پانچ سال میں پورے ملک میں مودی حکومت نے نئے گورنروں اور لیفٹننٹ گورنرس کے تقررات کئے ہیں، جن میں زیادہ تر ایسے سیاسی قائدین کو اعلیٰ منصب پر فائز کیا گیا ہے جن کا برسراقتدار بی جے پی سے تعلق رہا ہو۔ چنانچہ کئی مثالیں ہیں جہاں گورنروں نے بی جے پی کے حق میں جانبدارانہ فیصلے کئے، جیسے گوا، منی پور، کرناٹک، مہاراشٹرا وغیرہ۔


اس پس منظر میں گورنر کوشیاری سے امید نہیں کہ وہ ریاست میں شیوسینا۔ این سی پی۔ کانگریس کی نئی شیرازہ بندی کو دیکھتے ہوئے جمہوری حکومت قائم کرنے کی نیت سے صدر راج ہٹانے کی سفارش کریں گے۔ بی جے پی کو کرارا جھٹکہ لگا ہے کہ اس کی دیرینہ حلیف شیوسینا نے اسے سخت آزمائش میں ڈالا اور ایسی صورتحال پیدا کردی کہ بی جے پی زیرقیادت حکومت بننا ممکن نہیں رہا۔ چنانچہ صدر بی جے پی امیت شاہ اور وزیراعظم مودی یقینا شیوسینا پر برہم ہوں گے۔ تب وہ کیسے شیوسینا کو این سی پی اور کانگریس کے ساتھ انوکھا اتحاد قائم کرتے ہوئے مخلوط حکومت تشکیل دیتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں؟


بہرحال، مرکز مہاراشٹرا میں نئی مخلوط حکومت کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ بنا رہے گا۔ صدر راج کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک طوالت دی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد صدر راج میں توسیع چاہئے تو گورنر کی رپورٹ پر مرکز کو دوبارہ صدرجمہوریہ سے سفارش کرنا پڑتا ہے۔ اس درمیان تین، چار ماہ میں جھارکھنڈ، دہلی کے ریاستی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس تناظر میں مودی حکومت مہاراشٹرا کو صدر راج کے تحت ہی رکھنا چاہے گی۔ چنانچہ شیوسینا، این سی پی۔کانگریس کو کم از کم تین، چار ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد دیکھیں کہ صدر راج برخاست ہوتا ہے یا دوبارہ الیکشن کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔

***

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: