زندگی میں ہر کوئی کبھی نہ کبھی ، کسی نہ کسی معاملے میں اچھے اندازے قائم کرتا ہے یا یوں کہئے کہ معقول پیش قیاسی ہوجاتی ہے۔ میں یہاں خصوصیت سے دنیائے کرکٹ میں تین کھلاڑیوں کے بارے میں بات کروں گا جن کے ٹھیک ٹھیک اندازوں یا پیش قیاسی قابل رشک ہے۔ عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ تینوں کے نام پاکستان کے گریٹ لیگ اسپنر عبدالقادر(مرحوم)، لجنڈ اسٹار سچن تنڈولکر اور اُن کے لگ بھگ حقیقی جانشین ویراٹ کوہلی ہیں۔ میں تذکرہ کررہا ہوں عبدالقادر کی سچن کے بارے میں پیش قیاسی کی اور پھر تنڈولکر کی کوہلی کے بارے میں زبردست پیش قیاسی کی۔


زیادہ تر شائقین کرکٹ جانتے ہیں کہ تنڈولکر کے انٹرنیشنل کریئر کا آغاز 1989 میں پاکستان ٹور پر کراچی ٹسٹ سے ہوا۔ عبدالقادر نے بھی وہ میچ کھیلا اور وہ ان کے انٹرنیشنل کریئر کے آخری ٹسٹ میچز میں سے تھا۔ تب نوجوان وسیم اکرم اور سچن کے ساتھ اپنے انٹرنیشنل کریئر کا آغاز کرنے والے وقار یونس خطرناک فاسٹ بولرز تھے اور کیپٹن و تجربہ کار پیسر عمران خان بھی حریف بیٹسمنوں کیلئے آسان نہیں تھے۔ اسپیشلسٹ اسپنر کی حیثیت سے عبدالقادر کو دونوں اننگز میں صرف ایک، ایک وکٹ حاصل ہوئی، لیکن اس ڈرا میچ کے دوران انھوں نے ساڑھے سولہ سال کے سچن میں پوشیدہ صلاحیتوں کو تاڑ لیا، حالانکہ میچ میں اپنی واحد اننگز میں سچن محض 15 رنز بناپائے۔ انھیں بالخصوص وقار نے اپنے باونسروں سے پریشان کیا بلکہ وہ ایک گیند تو ان کے چہرے پر بھی لگی تھی، یہاں تک کہ وقار نے ہی ان کو بولڈ کیا۔


پاکستان ٹور پر ہندوستان نے کرشنما چاری سریکانت کی قیادت میں تین میچ کی ڈرا ٹسٹ سیریز کے بعد ونڈے سیریز کھیلی۔ پہلا ونڈے انٹرنیشنل میچ پشاور میں مقرر تھا جو ناسازگار موسم کے باعث ممکن نہ ہوا۔ شائقین کی کثرت کو دیکھتے ہوئے دونوں ٹیموں نے اَن آفیشل میچ کھیلنے سے اتفاق کیا۔ انڈین ٹیم مینجمنٹ کے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت تنڈولکر کو ونڈے سیریز میں ترجیحی کھلاڑی کے طور پر شامل نہیں رکھا گیا تھا۔ تاہم، ہوا یوں کہ عین موقع پر کپل دیو میچ کیلئے اَن فٹ ہوگئے۔ چنانچہ سچن کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اس مقابلے میں محض 18 گیندوں نے بہت کچھ بدل دیا۔ سچن نے 53 ناٹ آوٹ اسکور کئے۔ مشتاق احمد کو دو زبردست چھکے لگائے اور پھر عبدالقادر کے ایک اوور میں 27 رنز بنائے، جس تین لگاتار چھکے شامل ہیں۔ وکٹ کی دوسری جانب کپتان سریکانت کھڑے تھے جو خود نہایت جارحانہ بیٹنگ کیلئے جانے جاتے ہیں، مگر میچ کے بعد انھوں نے کہا کہ یہ چھوٹا سا دھماکو کھلاڑی اب (ونڈے میچز بھی) ضرور کھیلے گا اور پھر وہ ممکنہ حد تک طویل عرصہ او ڈی آئیز کھیلتے رہے۔


سریکانت نے سچن کے تعلق سے جو کچھ کہا وہ تو ہم وطن جونیئر کے بارے میں بات ہوئی۔ لیکن عبدالقادر نے اسی شام جو کہا وہ واقعی قابل رشک پیش قیاسی ہے۔ انھوں نے سچن کے تعلق سے کہا تھا کہ یہ لڑکا بہت بڑا کھلاڑی بنے گا اور بیٹنگ کے بہت ریکارڈ بنائے گا۔ عبدالقادر نے خصوصیت سے کہا کہ انھیں تین لگاتار چھکے پڑے جو چھکا لگانے والی گیندیں بہتوں کیلئے نہیں تھیں لیکن 16 سالہ لڑکے نے جس طرح ان گیندوں سے نمٹا، اس کی بیٹنگ کی خوبی کا اندازہ ہوا۔ عبدالقادر چونکہ ایک ماہ قبل ہی سچن کو ٹسٹ سیریز میں بھی دیکھ چکے تھے اور ونڈے میچ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اس کھلاڑی میں کچھ خاص بات ہے۔ میں عبدالقادر کی پیش قیاسی کو قابل رشک اس لئے کہہ رہا ہوں کہ سچن نے اپنے انٹرنیشنل کریئر کی محمد اظہرالدین یا اور بھی کئی اسٹار کھلاڑیوں کی طرح دھماکو شروعات نہیں کی تھی۔ جاوید میاں داد بھی دونوں سیریز میں سچن کو دیکھ چکے تھے۔ انھوں نے خانگی گوشوں میں سچن کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جبکہ عبدالقادر نے کھلے عام میڈیا کو بتایا کہ دیکھنا یہ لڑکا کرکٹ میں بہت بلندی تک جائے گا۔


عبدالقادر اور سچن کی طرح کا معاملہ تنڈولکر اور کوہلی کا بھی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، 2013 میں سچن نے انٹرنیشنل کرکٹ کو ویسٹ انڈیز کے خلاف ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں منعقدہ ٹسٹ میچ کے ساتھ خیرباد کہا۔ وہ میچ میں کوہلی بھی شامل تھے۔ ویراٹ نے 2008 میں سری لنکا ٹور پر میزبانوں کے خلاف ڈمبولا میں ونڈے میچ کے ساتھ اپنے انٹرنیشنل کریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے پہلا ٹوئنٹی 20 انٹرنیشنل میچ ہرارے میں زمبابوے کے خلاف کھیلا۔ پھر 2011 میں پہلا ٹسٹ ویسٹ انڈیز کے خلاف کنگسٹن میں کھیلا۔ اتفاق سے یہ تینوں موقعوں پر سچن میچ کا حصہ نہیں رہے (ویسے ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ سے وہ پہلے ہی ریٹائرمنٹ لے چکے تھے)۔ 


سچن کی 24 سالہ انٹرنیشنل کریئر سے سبکدوشی کے بعد ممبئی میں ان کیلئے تہنیتی تقریب منعقد کی گئی۔ تب ویراٹ کو ٹسٹ میچ کھیلے بمشکل دو سال ہوئے تھے ، لیکن آج سے چھ سال قبل 40 سالہ سچن نے تقریب سے خطاب کے دوران کوہلی کے تعلق سے واضح پیش قیاسی کی تھی کہ ان کے لگ بھگ سارے بیٹنگ ریکارڈ یہ نوجوان کھلاڑی (ویراٹ کوہلی) توڑنے والا ہے۔ شائقین کرکٹ کو یاد ہوگا کہ کوہلی کی بطور کھلاڑی صلاحیتوں پر کبھی بھی سوالیہ نشان نہیں اٹھے مگر برتا¶ یا میدان پر طرزعمل کے تعلق سے ان کے ابتدائی دور میں کافی تشویش پائی جاتی تھی۔ کئی بار گراونڈ پر وہ حریف کھلاڑیوں سے الجھے بلکہ کپتان کے طور پر اپنے کھلاڑیوں سے تک بعض اوقات سخت برہمی سے پیش آئے۔ تاہم، ایسا برتا¶ یا طرزعمل کوئی مستقل شخصی اوصاف نہیں ہوتے۔ آدمی کوشش کرے تو ایسے منفی رویے پر قابو پاسکتا ہے۔ سچن نے بھی شاید یہی جانا، اور انھوں نے ویراٹ کو انڈین بیٹنگ کا مستقبل قرار دیا۔ 


تب سے آج تک کوہلی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ انفرادی طور پر تو بہترین کھیل ہی رہے تھے۔ مہندر سنگھ دھونی کپتانی سے سبکدوش ہوئے تو ٹیم انڈیا کی قیادت کی اہم ذمہ داری بھی کوہلی کے سر آگئی۔ تاہم، خوشی کی بات ہے کہ کوہلی کی کارکردگی میں کچھ فرق نہ آیا۔ گزشتہ روز ہی وہ کولکاتا میں بنگلہ دیش کے خلاف ڈے نائٹ ٹسٹ میچ میں بطور کپتان تیزترین 5,000 ٹسٹ رنز بنانے والے کھلاڑی بن گئے۔ سچن تنڈولکر، برائن لارا، رکی پانٹنگ، ژاک کالیس، ہاشم آملہ، السٹیر کک، انضمام الحق جیسے ٹاپ اسٹارز کو پیچھے چھوڑنے والے کوہلی کے پرفارمنس کی شاید ہی کوئی ستائش سے گریز کرے گا۔ صرف تیزرفتار ٹسٹ رنز نہیں بلکہ وہ سچن کے کئی ٹسٹ اور ونڈے ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ کوہلی کا انٹرنیشنل کریئر ختم ہونے تک شاید تنڈولکر کے دو، تین ہی مشکل ورلڈ ریکارڈز باقی رہ پائیں گے، جیسے سب سے زیادہ ٹسٹ میچز کھیلنا، سب سے زیادہ ٹسٹ اور ونڈے رنز بنانا۔ 
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: