’نربھئے‘ کے ساتھ آخرکار 20 مارچ کی صبح انصاف ہوا جب چار درندہ صفت مجرمین کو تہاڑ جیل دہلی میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اس کے ساتھ زائد از سات سال طویل اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کیس کا منطقی انجام ہوا ہے۔ 16 ڈسمبر 2012 کو دہلی میں رات کے اوقات میں چھ شیطان صفت انسانوں نے 23 سالہ لڑکی کو نہ صرف اپنی ہوس کا اجتماعی نشانہ بنایا بلکہ اسے اتنی بے رحمی سے مارا پیٹا کہ چند دنوں بعد وہ سنگاپور کے نہایت عصری اسپتال میں زیرعلاج ہونے کے باوجود جانبر نہ ہوسکی۔

 

وہ اترپردیش میں بلیا سے تعلق رکھنے والی فزیوتھراپی طالبہ تھی اور اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گھر واپس ہورہی تھی۔ مجرمین نے انھیں لفٹ دینے کی پیشکش کے ساتھ گاڑی میں سوار کرا لیا اور پھر بوائے فرینڈ کو شدید زدوکوب کے ذریعے بے بس کردینے کے بعد اپنی ہوس پوری کی تھی۔ ان چھ میں ایک 18 سال سے کم عمر تھا۔ چنانچہ اسے نابالغ ہونے کا فائدہ ہوا اور وہ چند سال کی قید کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ ایک دیگر ملزم کی اس عرصے کے دوران موت ہوگئی۔ بقیہ چار مجرمین مکیش سنگھ، پون گپتا، اکشے ٹھاکر اور ونئے شرما کو عدالت نے سزائے موت سنائی۔

 

مجرمین نے سزائے موت سنانے کے دیڑھ سال تک رحم کی درخواست داخل کرنے سے گریزاں رہے۔ اچانک تین، چار ماہ سے وہ اپنی سزا میں تخفیف کرانے اور پھانسی سے بچنے کیلئے غیرمعمولی سرگرم ہوگئے اور ایڈوکیٹ اے پی سنگھ کے ذریعے ٹرائل کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک ہر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ تاہم، اُن کے پاس سزا سے بچنا تو درکنار اس میں تخفیف کرانے کا تک کوئی ٹھوس جواز نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ محض تضیع اوقات ہوتی رہی۔ آخرکار پھانسی کی صبح سے قبل کی رات دہلی ہائیکورٹ نے مجرمین اور ان کے ایڈوکیٹ کی فضول وقت گزاری میں ملوث ہونے پر سرزنش کی۔ وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہوئے اور اس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے، جہاں آخرکار ان کی پھانسی کی تمام رکاوٹیں دور کردی گئیں۔

 

ملک کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ بہ یک وقت چار مجرمین کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ 1980 کے دہے میں بدنام زمانہ مجرمین رنگا اور بلا کو بھی ایک ساتھ پھانسی دی گئی تھی۔ اس مرتبہ یہ تعداد دوگنی ہوگئی۔ دہلی ہائیکورٹ نے مجرمین اور ان کے ایڈوکیٹ کی سرزنش میں کہا کہ غیرضروری بے بنیاد دلائل کے ساتھ سزا کی تعمیل میں تاخیر پیدا کی جارہی ہے، جس میں انھیں سازش کی بو‘ آرہی ہے۔ حقیقت میں مجھے بھی گزشتہ تین ماہ پھانسی دینے میں ٹامل مٹول سے کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا کہ اکثریتی برادری سے تعلق رکھنے والے چار مجرمین کو بہ یک پھانسی دینے میں عاملہ کو شاید پس و پیش ہورہا ہے؟

 

تاہم، آخرکار ’نربھئے‘ (طالبہ کا حقیقی نام مخفی رکھتے ہوئے اسے نربھئے یعنی نڈر کہا جارہا ہے) سے حددرجہ زیادتی کرنے والوں کو ان کے کئے کی سزا مل گئی ہے۔ نربھئے کے والدین کو بجاطور پر اطمینان حاصل ہوا۔ ملک بھر نے بالخصوص خواتین کی تنظیموں اور اداروں نے چاروں مجرمین کو پھانسی کا خیرمقدم کیا۔ وزیراعظم مودی نے بھی ٹوئٹ کیا کہ خواتین کے ساتھ انصاف ہوا ہے اور خواتین کی عزت و سلامتی کی حفاظت مقدم چیز ہے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: