عمومی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں ماضی قریب کے مقابل مسلمانوں میں سیول سرویسز، انفرمیشن ٹکنالوجی کی تعلیم، بیرون ملک اعلیٰ تعلیم اور وطن میں پروفیشنل کورسیس سے فارغ ہونے اور ڈگریاں حاصل کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بے شک! یہ قابل ستائش اور حوصلہ افزاءتبدیلی ہے۔ اس معاملے میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے والے یہ تمام نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی بڑی اکثریت سماج کے امیر، بہت امیر اور بہت زیادہ امیر طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی غریب گھرانوں میں بچوں کی موجودہ دور کے اعتبار سے دسویں، بارہویں یا گرائجویشن تک تعلیم بھی سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ 

 

رب کائنات کی طرف سے اپنے بندوں کیلئے واضح اشارہ ہے کہ آپ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول کی شروعات ” پڑھو “ یعنی تعلیم سے کی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ کو ہجرت کے بعد ایک موقع پر جنگی قیدیوں کے طور پر چند مشرکین و کفار مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا۔ آپ صلعم نے پڑھنا لکھنا جاننے والے قیدیوں کو پیشکش کی کہ وہ مسلمانوں کی فلاں تعداد کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں تو ان کو آزاد کردیا جائے گا۔ ان باتوں کے بعد مجھے مزید کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام میں تعلیم کی کتنی اہمیت ہے؟

 

سب جاننے بوجھنے کے باوجود مسلمانوں کا مسئلہ ہندوستان میں غریبوں اور امیروں کے درمیان بڑھتے فرق جیسا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ انڈیا میں غریب کی حالت غریب تر اور امیر کا موقف امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ کچھ اسی طرح متوسط سے لے کر آگے حد سوچ تک مسلمانوں کا طبقہ تو تعلیم کے میدان میں ضرور کارنامے انجام دے رہا ہے (یہ اور بات ہے کہ یہ تعلیم اکثر معاملوں میں اخلاقیات سے عاری ہے مگر یہ علحدہ مسئلہ ہے) لیکن غریبوں کی فکر اتنی کم تعداد میں مسلمان کررہے ہیں کہ ان کی کوششوں کو غربت مات دے رہی ہے۔ 

 

سوال اٹھ سکتا ہے کہ آخر ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی کیا ذمہ داری ہے؟ موجودہ حالات میں بڑا ہی دلچسپ سوال ہے۔ جو کچھ بھی سہولتیں حکومتوں کی طرف سے دستیاب کرائی جارہی ہیں، ان سے استفادہ نہ کریں، ایسا مشورہ تو کوئی نہیں دے رہا۔ مگر یہ اچھی طرح ذہن نشین رکھیں کہ حکومتوں کی نیت میں کس قدر کھوٹ ہے۔ وہ اقلیتوں کیلئے وعدے بہت کرتے ہیں، اقلیتوں سے اکثر وعدے محض ضابطے کی تکمیل ہوتے ہیں۔ مرکز کے لچھن تو دکھائی ہی دے رہے ہیں، وہ تو مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ اس لئے موجودہ دور کم از کم اپنی کمیونٹی کے مسائل کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر انجام دینے کا ہے۔

 

میرا مشاہدہ ہے کہ اپنی اور فیملی کی ضرورتوں سے کافی زیادہ مال و دولت رکھنے والے مسلمانوں نے غریبوں کی تعلیم کا انتظام کرنے کے معاملے میں ’ مجرمانہ ‘ غفلت اختیار کررکھی ہے۔ یہ معاملہ قرآنی اصطلاح میں ’ انفاق ‘ کے تحت بھی آتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ’ پیٹ بھرے ‘ مسلمانوں کی بڑی اکثریت ایسے مسائل پر کان دھرنے تیار نہیں۔ مسائل اس لئے کہا، کیونکہ غریب لڑکیوں کی شادیوں کا بھی سنگین مسئلہ ہے۔ یہ مسلمانوں کو لکھ پتی ہوں تو کروڑ پتی بننے اور پھر ارب پتی نہ سہی کئی سو کروڑ کے مالک بننے کی فکر ستائے رہتی ہے۔

 

ہنسی آتی ہے ایسے ظاہری دیندار مسلمانوں پر جن کو اپنا ذاتی گھر ہونے پر اپنا اور اپنی فیملی کا مستقبل ’ محفوظ ‘ معلوم نہیں ہوتا۔ وہ پلاٹ ، فلیٹ یا مکان کی شکل میں جائیدادیں خریدنے میں سرگرداں رہتے ہیں۔ پھر جائیداد کو ڈیولپ کرنے میں عمریں کھپا دیتے ہیں ( اس کے بعد کا کام ان کی نسل سنبھال لیتی ہے ) ۔ ان کے پاس دسیوں لاکھ بلکہ کروڑ سے بھی زیادہ جمع رہتے ہیں مگر ان کو ’ انفاق ‘ کی توفیق نہیں ہوتی۔ اکثر کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ’ انفاق ‘ کس چڑیا کا نام ہے۔ وہ اپنی دینی و سماجی ذمہ داری سے فرار حاصل کرتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ اچھے اور پکے مسلمان ہیں۔ اس پر ہنسیں نہیں تو اور کیا کریں؟

 

موجودہ دور، انفاق اور فلاح کے کاموں میں اجتماعی طور پر حصہ لینے اور ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے میں ناقص ہے۔ میری ایک تجویز ہے کہ ہر مسلمان اپنی حیثیت کا خود جائزہ لے اور سماج میں دیکھے کہ کون غریب مستحق ہے جس کی تعلیم پر خرچ کرنا مناسب ہوگا۔ وہ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرلے اور غریب مستحق کے متعلقین کو اطمینان بخش یقین دلائے کہ وہ اس کی تعلیم کا بندوبست کرے گا۔ میرے خیال میں اوسط درجہ کی تعلیم پر فی طالب علم سالانہ لگ بھگ 25,000 روپئے کا خرچ آئے گا۔ کیا کسی کروڑپتی کیلئے سال میں اتنا خرچ بطور انفاق کرنا کوئی مشکل کام ہے؟ ( برائے مہربانی، زکوٰة کو اِدھر ٹرانسفر مت کیجئے۔ اسے حسب سابق اپنے مستحق رشتے داروں اور زیادہ غریب افراد میں تقسیم کیجئے )۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: