ٹھاکر راجہ سنگھ لودھ ایم ایل اے۔ آپ کا میں نے گزشتہ روز (چہارشنبہ کو) آج یعنی جمعرات کو تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں تاریخی چارمینار سے گوشہ محل تک تقریباً دو کیلومیٹر طویل احتجاجی جلوس کے بارے میں متعلقہ پولیس کے نام یوٹیوب ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پلیٹ فام واٹس ایپ پر دیکھا اور سنا۔ میں روزانہ ہی ایم ایل ایز سے لے کر ایم پیز تک زیادہ سوشل میڈیا پر ٹوئٹر کو استعمال کرتے دیکھتا ہوں مگر آپ عوام اور حکام تک اپنی بات پہنچانے کیلئے یوٹیوب ویڈیو کو ترجیح دیتے ہو۔ آپ کے نام میرا یہ کھلا پیام گزشتہ روز کے ویڈیو کے تناظر میں ہے۔

 

یونائیٹیڈ آندھرا پردیش میں تلگودیشم پارٹی کے 2009 میں کارپوریٹر منگل ہاٹ ڈیویژن رہ چکے اور اب تلنگانہ اسمبلی کیلئے حلقہ گوشہ محل سے منتخب ممبر راجہ سنگھ (عمر 41 سال) سے کچھ کہنے سے قبل خود میرا تعارف کرانا مناسب ہے۔ میں آپ کے اسمبلی حلقہ کے پڑوس کا مسلمان ساکن، حلقہ لوک سبھا حیدرآباد کا ووٹر اور پروفیشنل جرنلسٹ ہوں۔ میرا اور میرے باپ دادا کا وطن حیدرآباد ہے۔ جہاں تک میری عمر ہے، میں آپ سے کم از کم سات بہاریں زیادہ دیکھ چکا ہوں۔ 

 

حیدرآباد میں کام کرنے والے مقامی جرنلسٹ کیلئے مناسب ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہر کے ایم پیز اور ایم ایل ایز کی کچھ تو جانکاری ضرور رکھے۔ میں آپ کو 31 سالہ ٹی ڈی پی کارپوریٹر کے وقت سے واچ کرتا رہا ہوں۔ پھر اتنے برسوں میں خود آپ کی ویب سائٹ ’ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو ڈاٹ ٹی راجہ سنگھ ڈاٹ کام‘ سے مجھے مزید جانکاری ملی کہ کس طرح آپ ابتدائی عمر میں معاشی مشکلات کے باوجود حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ آپ فطری طور پر ہندوتوا سوچ رکھتے ہو اور اسی لئے اپنی جوانی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ ہوئے۔ بعد میں آپ ایکٹیو پالیٹکس میں داخل ہوئے اور بلدی خدمت گزار بنے۔

 

آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ ہمارے دیش میں سمویدھان (کانسٹی ٹیوشن) نے تمام سٹیزنس کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے، اپنی پسند کی زبان بولنے، اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے، اور جمہوری حدود میں رہ کر اپنی آواز اٹھانے وغیرہ کے رائٹس دے رکھے ہیں۔ یہ آواز گورنمنٹ کی تائید میں ہوسکتی ہے اور مخالفت میں بھی۔ ڈیموکریسی میں اپوزیشن کا جو تصور ہے ، اس کا بنیادی مقصد حکومت پر تعمیری تنقیدوں کے ساتھ اس کو بے قابو ہونے سے ممکنہ طور پر روکنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر دہلی میں 2004 سے 2014 تک منموہن سنگھ کی قیادت میں یو پی اے حکومت قائم رہی۔ بی جے پی کی سربراہی میں این ڈی اے نے کانگریس زیرقیادت حکومت کی خامیوں کو ہائی لائٹ کیا۔ پھر معاملہ الٹ گیا۔ آپ دیکھ رہے ہو کہ 2014 سے 2024 تک کیلئے نریندر مودی حکومت کو مینڈیٹ ملا ہے۔ اب کانگریس تو باقاعدہ اپوزیشن تک نہیں ہے مگر اپوزیشن میں بڑی پارٹی ضرور ہے۔

 

میرے کہنے کا مطلب یہ کہ جمہوریت میں ’پاور‘ آنا اور جانا لگا رہتا ہے۔ لیکن سب دیش واسیوں کو جوڑے رکھنے والی چیز سمویدھان ہوتا ہے۔ میں نے چارمینا سے گوشہ محل تک ریلی کے تعلق جو ویڈیو کلپ دیکھا ، اس میں آپ غیرضروری طور پر برہم نظر آرہے ہو۔ ایسا لگا کہ آپ پولیس کو اِن ڈائریکٹلی ’دھمکا‘ رہے ہو۔ آپ نے کہا کہ جمعرات کی ریلی کے جواب میں گوشہ محل سے چارمینار تک سٹیزن شپ امینڈمنٹ لا (سی اے اے) کے حق میں ریلی نکالیں گے، شوق سے نکالئے۔ آپ ایم ایل اے ہو۔ کیا آپ سمجھتے ہو کہ جمعرات کی ریلی کا پولیس پرمیشن نہیں ہے؟ جب اس کا پرمیشن دیا گیا تو ممکن ہے آپ کو بھی پرمیشن دیا جائے گا۔ آپ کو پولیس سے رجوع ہونے کا پورا حق ہے۔

 

مجھے کیا ، پورا حیدرآباد اور ملک جانتا ہے کہ آپ کو ہندوتوا سے خاص لگاو ہے۔ آپ کی ویب سائٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ کم عمری سے آپ کی یہی سوچ رہی ہے اور یہی وجہ بنی کہ آپ نے آر ایس ایس جوائن کیا، جو ہندوتوا کے معاملے میں ملک بھر کے سارے ہم خیال تنظیموں کی پیرنٹ آرگنائزیشن ہے۔ سٹیزن شپ امینڈمنٹ لا، آسام این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ایک سے زائد بار اعلان کے مطابق نیشنل لیول پر این آر سی پر آج دیش میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پروٹسٹ کرنے والوں کے ساتھ آپ مجھے بھی جوڑ سکتے ہو۔ اس کی سادہ ریزن یہ ہے کہ سی اے اے مسلمانوں کے تعلق سے سراسر ڈسکری منیٹری (تعصب پر مبنی) قانون ہے۔ 

 

اس دیش کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے میں ہندووں کے ساتھ مسلمانوں نے اپنا کتنا خون بہایا، یہ آپ ریلائبل ہسٹری بکس میں پڑھ لیجئے۔ آج پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت اپنی 20 کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ ہتک آمیز برتاو کرے۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ انڈین گورنمنٹ ہندو، جین، عیسائی، سکھ، بدھسٹ، پارسی لوگوں کو تو سٹیزن شپ تحفے میں دے گی مگر مسلمان کو نہیں۔ کیا مسلمان اچانک ’اَن ٹچیبل‘ (اچھوت) ہوگئے؟ ارے، ہمارے دیش نے تو اچھوتوں کو تک ریزرویشن دے کر 72 سال سے ان کی مسلسل ترقی کو یقینی بنایا ہے اور آج ان کا سوشل اسٹیٹس اتنا اونچا ہوگیا کہ ان کے مقابل مسلمانوں کی اکثریت ہر فرنٹ پر ’بیک ورڈ‘ ہوچکی ہے۔ یہ انصاف ہے ہندوازم کا؟

 

راجہ سنگھ جی، مجھے خیال آتا ہے کہ وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے آر ایس ایس کی سرپرستی میں آسام این آر سی، سی اے اے جیسے اقدامات میں فضول ٹائم اور پیسہ خراب کررہے ہیں۔ میرے جیسے دیش بھکت ناگرک سے مشورہ لیا جاتا تو میں کہتا کہ آر ایس ایس کا مقصد ’ہندوراشرا‘ بنانا ہے، دیش میں یونیفارم سیول کوڈ لاگو کرنا ہے؛ بی جے پی کا کام پارلیمنٹ اور پریسڈنٹ کے ذریعے اس پر عمل کرنا ہے۔ دیش میں آپ جیسے جانے کتنے لیجسلیٹرز ہیں جو ٹھیک یہی چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں، مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں سیدھے ملک کو ’ہندو راشٹرا‘ بنا دینے کا بل کیوں نہیں پیش کردیا۔ بی جے پی کے ساتھ این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کو ملائیں تو لوک سبھا میں آپ کی عددی طاقت 350 سے زیادہ ہے۔ راجیہ سبھا میں بھی آپ کسی نہ کسی طرح کامیاب ہورہے ہو۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ کیوں این آر سی، سی اے اے وغیرہ کے ٹیڑھے میڑھے اور پیچیدہ راستے اختیار کئے جارہے ہیں۔ آپ کو فی الحال اقتدار ملا ہے، جو کرنا ہے، کوشش کرو۔ اپوزیشن اور عوام کو جو کرنا ہے ضرور کریں گے۔ یہی تو جمہوریت ہے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: