وزیراعظم نریندر مودی کو خاص طور پر بیرونی دوروں اور اچھے لباس پہننے کا بہت شوق ہے۔ یہ بات میں یونہی اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ گزشتہ ساڑھے پانچ سال اُن کے دورِ اقتدار کی روداد اور خود حکومت کے اعداد و شمار یہ حقیقت کو قوم کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ گزشتہ روز جمعرات کو حکومت نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ پچھلے تین سال میں وزیراعظم مودی کے بیرونی دوروں میں چارٹرڈ فلائٹس کیلئے زائد از 255 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔ خصوصی پروازوں کیلئے مالی سال 17 ۔ 2016 میں 76.27 کروڑ روپئے، 18 ۔ 2017 میں 99.32 کروڑ اور 19 ۔ 2018 میں 79.91 کروڑ روپئے سرکاری خزانہ سے صرف ہوئے ہیں۔


مئی 2014 میں چیف منسٹر گجرات سے مرکزی اقتدار سنبھالنے والے مودی نے رواں سال کے اوائل سب سے اقوام کا دورہ کرنے والے وزیراعظم ہند کی حیثیت سے دوسرا نمبر حاصل کرلیا۔ اول نمبر پر اندرا گاندھی ہیں جنھوں نے اپنے 17 سالہ اقتدار میں 113 ملکوں کے دورے کئے جبکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے 10 سالہ اقتدار 93 ممالک ( ایک سے زیادہ مرتبہ دوروں کے بشمول )کا دورہ کیا۔ ظاہر طور پر دیکھیں تو مجھے یقین ہے مودی جلد ہی 113 کے نشانے کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ 


وزیراعظم مودی کے اندرون ملک اور بیرونی دورے پر لائف اسٹائل میں نمایاں فرق دیکھنے میں آتا ہے۔ سب سے پہلے ان کے ملبوسات سرزمین ہند چھوڑنے کی تیاری کے ساتھ ہی کافی مہنگے ہوجاتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کسی بھی قومی لیڈر کو خوش لباس ہونا چاہئے لیکن کیا ایسے لباس میں ان کو دیکھنے کا حق صرف غیرہندوستانیوں کو ہے؟ جب وہ ہندوستان میں اپنے غریب ہم وطنوں کے سامنے مہنگا لباس پہننے سے کتراتے ہیں تو اندرون و بیرون ملک اس قدر تضاد کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ جب وہ بیرون ملک وزیراعظم ہند کی حیثیت سے مہنگا لباس پہننے میں ہچکچاتے نہیں تو ان کو وطن میں بھی ایسا ہی حوصلہ دکھانا چاہئے۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ وہ غریبوں سے روبرو کس طرح ہوتے ہیں؟


اعلیٰ قومی قیادت کے بیرونی دورے سیر و تفریح کیلئے نہیں ہوتے، بلکہ سرکاری خرچ پر ان دوروں کا ٹھوس مقصد ہوتا ہے۔ پی ایم مودی کے ہر بیرونی سفر پر اوسطاً لگ بھگ 22 کروڑ روپئے صرف ہوتے ہیں۔ مودی کے معاملے میں عجیب روش دیکھنے میں آئی کہ وہ اپنے اقتدار کے ابتدائی دو، تین سال بیرونی سرزمین پر اپنے وطن کی اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص کانگریس کو نشانہ بنانے توجہ مرکوز رکھی۔ ان کے بعض مضحکہ خیز ریمارکس بھی سامنے آئے، جیسے دنیا میں ہندوستان کے وجود کا احساس ہونا مودی حکومت کی مرہون منت ہے ورنہ عالمی منظر پر اس ( برصغیر کے بڑے ) ملک کی کچھ خاص شناخت نہ تھی۔ 


جہاں تک اعداد و شمار کی بات ہے، وزیراعظم مودی کے بیرونی دوروں میں آخری تازہ ریکارڈ تک 480 معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کئے گئے۔ مجموعی طور پر اوسط دیکھیں تو فی دورہ زائد از 5 معاہدے ہوتے ہیں۔ ظاہر طور پر معلوم ہوگا کہ ہمارے قومی لیڈر کے بیرونی دورے ثمرآور ثابت ہوئے۔ تاہم، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان معاہدوں کی بڑی اکثریت روایتی اور غیراہم نوعیت کی ہے جو بالعموم ہر دو ملکوں کے درمیان طے پاتے ہیں۔ کسی بھی اہم شعبہ میں کوئی بڑی خریداری اور فروخت، نیز اپنے وطن میں بیرونی راست سرمایہ کاری ( ایف ڈی آئی ) کا حصول کسی فارن ٹور کا اصل کارآمد نتیجہ ہوتا ہے۔ ایف ڈی آئی میں ہندوستان کا 2014 سے قبل عالمی سطح پر 16 ، 17 رینک ہوا کرتا تھا، جو گھٹتے گھٹتے 2018 میں 11 ہوگیا۔ 


گزشتہ ساڑھے پانچ سال میں پی ایم مودی کے بیرونی دوروں میں بڑی معاملتوں کو یاد کریں تو فرانسیسی رفائل لڑاکا جٹ طیارہ کی معاملت ابھر آتی ہے۔ یہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور اقتدار کے آخری مراحل میں یو پی اے ۔ II حکومت نے شروع کی تھی جس کی مودی نے اپنے ابتدائی دور اقتدار میں کافی متنازع انداز میں تکمیل کی۔ اپوزیشن کانگریس اور اس کے لیڈر راہول گاندھی نے لوک سبھا الیکشن 2019 کے دوران اسے بڑا مسئلہ بنایا۔ حتیٰ کہ ان کے ریمارک ” چوکیدار چور ہے “ پر سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا اور آخرکار ان کو تنبیہہ اور مستقبل میں احتیاط کی ہدایت کے ساتھ کیس کی یکسوئی کردی گئی۔ تاہم، کانگریس اور راہول نے رفائل معاملت کے تعلق سے جو سوالات اٹھائے تھے، ان کے جواب مودی حکومت نے کبھی ٹھوس انداز میں نہیں دیئے۔ اس طرح کے پس منظر میں پی ایم مودی کے بیرونی دوروں کو ” لا حاصل “ کہیں تو زیادتی نہ ہوگی۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: