بارش کا موسم زلزلہ یا آندھی طوفان کی طرح اچانک نہیں آتا۔ ہندوستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور موسم باراں کا انتظار تو ہمارے پاس آٹھ نو مہینے ہوتا رہتا ہے۔ اس موسم کی آمد سے کئی ہفتوں قبل محکمہ موسمیات کی پیش قیاسی شروع ہوجاتی ہے اور آخرکار انسانوں کے لیے لازمی عنصر پانی فراہم کرنے والا یہ موسم کچھ پیشتر، بروقت یا کچھ تاخیر سے آہی جاتا ہے۔ ہاں، اگر اوپر والے نے کسی خطہ کے لیے قحط سالی طے کردی تو الگ بات ہے۔
اس تمہید سے یہ بتانا مقصد ہے کہ جب عام شہریوں کو اس کے بارے میں اطلاع ہوتی ہے تو تلنگانہ کے دارالحکومت کا گریٹر حیدرآباد میونسل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) کیوں کر غفلت میں پڑا رہتا ہے؟ ہر سال تھوڑی دیر کی تیز بارش کے نتیجے میں پسماندہ محلہ جات تو کیا پاش علاقوں کی سڑکیں بھی جھیل کا منظر پیش کرتی ہیں۔ کئی جگہ بوسیدہ مکانات و عمارتوں کا انہدام ہوتا ہے۔ بارش سے متعلقہ حادثات میں کئی افراد فوت ہوتے ہیں۔ پھر بھی حکومتیں اور بلدی حکام جیسا چاہئے ویسا متحرک نہیں ہوتے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ حکومتیں اور جی ایچ ایم سی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ سال بہ سال موسم بارش کے دوران جی ایچ ایم سی حدود میں سڑکیں ، ڈرینج سسٹم اور صفائی کے دیگر کاموں سے متعلق صورتحال میں نمایاں بہتری کیوں نہیں آتی؟
بارش کے ساتھ ہی مچھروں کی افزائش اور موسمی تبدیلی سے مختلف نوعیت کی بیماریاں آبادیوں میں پھیل جاتی ہیں۔ خاص طور پر بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مچھروں کی وجہ سے حالیہ برسوں میں ڈینگی نے شہریوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ملیریا اور ٹائیفائیڈ تو اس چھوٹی سی مخلوق کے سبب لاحق ہونے والی پرانی بیماریاں ہیں۔ جی ایچ ایم سی حدود میں مچھروں کے انسداد کے لیے ہنوز وہی مخصوص کیمیائی ترکیب کا دھواں چھوڑنے کا طریقہ چل رہا ہے۔ اس معاملے میں بھی حکام امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ شہر کی ہر بستی اور آبادی تک ان کی رسائی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں، اس ترقی یافتہ دور میں حکومتوں اور بلدی حکام کو مچھروں کی بے تحاشہ افزائش پر کنٹرول کے لیے جدید طریقے ڈھونڈنے چاہئیں۔ روزانہ کے کچرے کی نکاسی اور صاف صفائی کو بھی مزید بہتر بنایا جائے تو مچھر کے مسئلہ کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
جی ایچ ایم سی حدود میں خاص طور پر شہری آبادی والے علاقوں میں ایک اور مسئلہ آوارہ کتوں کی بہتات ہے۔ بلدیہ پالتو کتوں کو گھروں میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے مگر نیم پالتو (جن کو بعض عام مقامات جیسے پٹرول پمپس یا بنکس کے حدود میں وہاں کے ملازمین رہنے دیتے ہیں) اور آوارہ کتوں نے عوام کا جینا دشوار کررکھا ہے۔ دن بھر کی تھکن کے بعد رات کو جب آدمی سکون سے سونا چاہے تو ایسے کتے آس پاس کے گھروں میں مکینوں کی نیندیں حرام کردیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں جی ایچ ایم سی کا ڈاگ اسکواڈ بہت کم متحرک دیکھنے میں آیا ہے۔ 
شہریوں کی زندگی میں بلدی امور کی کافی اہمیت ہے۔ اگر ان امور کی دیکھ بھال اور ضروری اقدامات کے لیے کوئی مینجمنٹ یا کارپویشن نہ ہو تو زندگی عملاً ٹھپ ہوجائے گی۔ ایک شعبہ جس میں جی ایچ ایم سی یا کوئی بھی شہر کا بلدیہ کافی مستعدی دکھاتا ہے وہ پراپرٹی ٹیکس کی وصولی یا پھر تعمیرات کی اجازت سے متعلق امور ہیں۔ بے شک، بلدی حکام کو فعال رہنا چاہئے لیکن میرا مدعا ہے کہ شہریوں کو سہولتوں سے استفادہ کا پورا حق حاصل ہے اور اس معاملے میں حکومتوں یا بلدی حکام کا شہریوں پر کوئی احسان نہیں ہوتا کیوں کہ جمہوریت میں ”عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے“ والا معاملہ ہوتا ہے۔
جی ایچ ایم سی کے بارے میں کچھ جان لیتے ہیں۔ سال 1933 میں چادرگھاٹ میونسپلٹی کو حیدرآباد میونسپلٹی کے ساتھ ضم کرتے ہوئے حیدرآباد میونسپل کارپوریشن تشکیل پایا جسے حیدرآباد میونسپل ایکٹ کے تحت قانونی درجہ دیا گیا۔ پھر 1955 میں حیدرآباد اور سکندرآباد کے میونسپل کارپوریشنس کو ضم کرتے ہوئے میونسپل کارپوریشن آف حیدرآباد (ایم سی ایچ) بنایا گیا۔ جڑواں شہروں کے لیے ایم سی ایچ کی طویل کارکردگی کے بعد 16 اپریل 2007 کو ایم سی ایچ کیساتھ 12 میونسپلٹیز اور 8 گرام پنچایتوں کا انضمام کرتے ہوئے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپویشن تشکیل دیا گیا۔ 

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: