بھیم آرمی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد کو گزشتہ روز حیدرآباد میں ایک خانگی فنکشن ہال میں سی اے اے کی مخالفت میں احتجاجی جلسہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ جلسہ کو ہی پولیس پرمیشن نہیں دیا گیا۔ آزاد حیدرآباد میں سی اے اے کی مخالفت میں دو تین ایونٹس میں شرکت کیلئے اتوار کو حیدرآباد پہنچے تھے۔ وہ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسیس واقع عبداللہ پور مٹ پہنچ کر نئے قانون شہریت (سی اے اے) اور این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) کے خلاف چند تنظیموں کے منعقدہ پروگرام میں شرکت کرپائے۔ سہ پہر سے شام تک ویسٹ زون کے علاقہ میں واقع کرسٹل گارڈن میں احتجاجی جلسہ عام میں شرکت چندرشیکھر کے دورہ حیدرآباد کا نمایاں پروگرام تھا، جس میں شرکت سے روک کر تلنگانہ پولیس نے ان کو گرفتار کیا اور راجیو گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ واقع شمس آباد سے واپس بھیج دیا۔

 

بھیم آرمی 2015 میں اترپردیش میں تشکیل کردہ تنظیم ہے۔ دستورِ ہند کے کلیدی معمار بھیم راو امبیڈکر سے متاثرہ آرگنائزیشن بنیادی طور پر دلتوں کیلئے کام کرتی ہے اور وقت پڑنے پر مظلوموں کا ساتھ بھی دیتی ہے جیسا کہ اب ہندوستانی مسلمانوں پر وقت آن پڑا ہے۔ اس تنظیم کے بانیوں میں چندرشیکھر کے ساتھ ونئے رتن سنگھ شامل ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ چندرشیکھر آزاد کا ایسا کیا فرقہ پرستی یا اشتعال انگیزی پھیلانے کا ٹریک ریکارڈ ہے جس کے پیش نظر کے سی آر کی ٹی آر ایس حکومت نے آزاد کو ایسے وقت مخالف سی اے اے جلسہ میں شرکت سے روکا جبکہ خود چیف منسٹر تلنگانہ ایک روز قبل ریاست کے بلدی انتخابات میں پارٹی کی غیرمعمولی کامیابی کے بعد پریس کانفرنس منعقد کرتے ہوئے مودی ۔ شاہ حکومت کے احمقانہ قوانین سی اے اے، این پی آر، این آر سی کی مخالفت میں اپنی حکومت کا موقف دو ٹوک انداز میں پیش کرچکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ تلنگانہ اسمبلی میں سی اے اے کی مخالفت میں قرارداد منظور کی جائے گی۔

 

چیف منسٹر کے اعلان سے واضح ہوا کہ تلنگانہ بھی کیرالا، پنجاب، راجستھان، مغربی بنگال کی طرح سی اے اے کی مخالف ریاست ہے۔ اس کے بعد سی اے اے کی مخالفت میں ہی پرامن احتجاجوں کا گلا گھونٹنا کھلا تضاد ہے۔ میں کے سی آر کو فرقہ پرست لیڈر نہیں سمجھتا۔ ان کی سیاسی ترقی فرقہ پرستی کے سہارے نہیں ہوئی، جیسا کہ بی جے پی میں اکثر لیڈروں کا معاملہ ہے۔ تلنگانہ کے کاز اور سازگار حالات نے کے سی آر کو اس مقام تک پہنچایا جہاں آج وہ ہیں۔ چندرشیکھر آزاد ہوں ، محمد مشتاق ملک ہوں یا ملک بھر میں اس دھارے کے دیگر قائدین، وہ سب نے بھی گھٹیا سیاست یا فرقہ پرستی سے اپنا نام نہیں کمایا ہے بلکہ اپنی اپنی کمیونٹی کے جائز حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہوئے سماج میں ابھرے ہیں۔

 

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کٹر فرقہ پرست چیف منسٹر ’یوگی‘ آدتیہ ناتھ کی ریاست یو پی میں دارالحکومت لکھنو سے لے کر کئی چھوٹے بڑے شہروں میں مخالف سی اے اے، این پی آر، این آر سی احتجاج چل رہے ہیں، چاہے نظم و نسق اجازت دے یا نہ دے۔ دہلی میں پولیس اور لا اینڈ آرڈر کی برقراری مرکز کی مودی۔شاہ حکومت کے تحت ہیں۔ وہاں شاہین باغ ملک کا سب سے بڑا مخالف سی اے اے، این پی آر، این آر سی احتجاجی مرکز بن چکا ہے۔ مگر تلنگانہ میں ”حیدرآباد ایم پی“ کو تک پرامن احتجاج کی مشروط اجازت دی جارہی ہے۔ وہ تو تلنگانہ حکومت نے بڑی خیرسگالی دکھائی کہ سی اے اے پر اپنے موقف کا اعلان کرنے سے کافی قبل مجلس کے ہیڈکوارٹر دارالسلام میں احتجاجی جلسہ عام کو نہیں روکا۔ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ 4 جنوری کو حیدرآباد کے ’ملین مارچ‘ کا پرمیشن تلنگانہ، اے پی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو ہائیکورٹ سے لانا پڑا۔ 

 

تاہم، اب جبکہ کے سی آر حکومت نے سی اے اے کی مخالفت میں ریاستی اسمبلی میں قرارداد منظور کرنے کا اعلان کردیا ہے، بھیم آرمی جیسی غیرسیاسی تنظیم کے لیڈر چندرشیکھر آزاد کو اسی ”سی اے اے“ موضوع پر احتجاجی جلسہ عام میں شرکت سے روکنے بلکہ پولیس کی نگرانی میں حیدرآباد سے واپس بھیج دینے کا کیا جواز ہے؟ میں نے کبھی کے سی آر کا تقابل نریندر مودی، امیت شاہ، موہن بھاگوت، ایل کے اڈوانی، ونئے کٹیار، پراوین توگاڑیا اور بے شمار فرقہ پرست لیڈروں سے نہیں کیا، کیونکہ بنیادی طور پر میں کے سی آر کو ”فرقہ پرست“ نہیں بلکہ ”چالاک اور اکثر مکار“ سیاستدان مانتا ہوں، جو سادگی سے اور بروقت کوئی ”پوزیشن“ اختیار کرنے میں اکثر و بیشتر بڑا ہچکچاتے ہیں۔ 

 

ٹھیک ہے، ہر فرد، ہر شخصیت ، ہر لیڈر کی کچھ نہ کچھ انفرادی خاصیت ہوتی ہے۔ اس لئے مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ لیکن یہ ضرور قابل اعتراض بات ہے بلکہ تضاد کا کھلا مظاہرہ ہے کہ آپ ایک طرف اعلان کرتے ہو کہ آپ کی پارٹی (ٹی آر ایس) کی حکومت ریاستی اسمبلی میں سی اے اے کی مخالفت میں قرارداد منظور کرے گی۔ آپ نے پریس کانفرنس میں تقریباً نصف گھنٹہ مرکزی حکومت کے اقدامات بشمول سی اے اے پر جم کر تنقیدیں کئے۔ پھر 24 گھنٹے کے اندرون آپ کی حکومت کی پولیس وہی موضوع (سی اے اے) پر عوام کو تکلیف دیئے بغیر خانگی فنکشن ہال میں جلسہ عام کا پروگرام بناتے ہیں اور کئی روز سے تیاریاں چل رہی، میلوں دور سے مہمان لیڈر کی آمد ہوتی ہے .... اور آپ کی حکومت و پولیس سارے پروگرام پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ یہ سی اے اے کی مخالفت ہے یا بھیم آرمی لیڈر کی مخالفت ہے یا پھر آپ کا سی اے اے پر اندرون 24 گھنٹے ارادہ بدل گیا ہے؟ یہ کیسا تضاد ہے، چیف منسٹر صاحب؟
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: