چیف منسٹر کے سی آر کا اب تک یہی طریقہ عمل دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ پالیٹکس اور حکمرانی میں کبھی کوئی کام فوری یا دو چار دن میں نہیں کرتے۔ کئی بار اس سے کم از کم انھیں یا ان کی پارٹی ٹی آر ایس کو فائدہ ہوتا ہے مگر یہ طے ہے کہ عوام کا کبھی بھلا نہیں ہوتا۔ نہیں ، نہیں .... میں غلط بیانی سے کام نہیں لے رہا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ٹی آر ایس حکومت نے تلنگانہ کے گزشتہ اسمبلی انتخابات سے قبل کسانوں کو ان کی زمینات اور کاشتکاری میں مدد کے نام پر فی ایکڑ زرعی اراضی کے حساب سے رقم دینا شروع کیا۔ یہ اقدام زرعی اعتبار سے کس حد تک درست ہے اور کب تک برقرار رکھا جاسکتا ہے، حکومت اچھی طرح جانتی ہے۔ اس لئے میں ایسی اسکیمات کو ”رشوت“ مانتا ہوں۔

 

موجودہ طور پر ہمیں این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر) کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ میں سنگین اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں کھل کر کہا کہ مودی حکومت این آر سی (نیشنل رجسٹر فار سٹیزنس) کی طرف پہلا قدم ہے۔ این پی آر عمل کو معمول کی دس سالہ مردم شماری (سنسیس 2021) کے پہلے مرحلے کے ساتھ منعقد کیا جارہا ہے۔ مردم شماری میں جو معلومات درج کی جاتی ہیں ، لگ بھگ وہی ڈیٹا این پی آر کے تحت بتایا جارہا ہے اور جو کچھ مختلف ہے، وہ پہلے سے ہی حکومت کے پاس آدھار کی شکل میں موجود ہے۔ اس کا مطلب این آر پی کا عمل وقت ضائع کرنا ہے۔ اگر وقت ضائع کرنا نہیں تو پھر آپ (مرکزی حکومت) کا ارادہ این آر سی لانا ہے۔ آسام میں این آر سی لانے پر کتنی کامیابی ملی اور ریاست کے مکینوں کو کتنی مصیبتیں جھیلنا پڑرہا ہے، سارا ملک جانتا ہے۔

 

لہٰذا، این پی آر اور اس کے ساتھ این آر سی کی جڑ کاٹنا ضروری ہے۔ تمام باشعور لوگ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ یہ صرف اور صرف حکومت کی اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے اقدامات ہیں۔ ورنہ انھیں بھی معلوم ہے کہ یہ قابل عمل اقدامات نہیں ہیں۔ جس ملک میں 35 فیصد سے زیادہ آبادی پڑھنا لکھنا نہیں جانتی، وہاں آپ این پی آر اور این آر سی کی بات کررہے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اپنے منشور کے وعدوں میں بری طرح ناکام مودی حکومت کے ساتھ کئی ریاستیں بھی ہیں جن کا یہی حال ہے اور وہ بھی عوام کو اسی سرگرمی میں جھونک دینا چاہتے ہیں جیسے تین سال قبل ”نوٹ بندی“ میں پھنسا کر اپنا الو سیدھا کیا گیا تھا۔

 

کے سی آر حکومت اور حیدرآباد میں اس کی حلیف ایم آئی ایم پر افسوس ہے کہ وہ اپنے گھٹیا سیاسی فوائد اور اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کیلئے عوام کو ناقابل قیاس مشکلات میں ڈال دینا چاہتے ہیں۔ 2014 سے اب تک کئی مصیبتیں آئیں جیسے لنچنگ، نوٹ بندی، ناقص جی ایس ٹی، بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری، خواتین کے خلاف جرائم وغیرہ۔ عوام کسی طرح انھیں جھیل کر اپنی گزربسر کا انتظام کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی معاملے میں ”شہریت پر سوال“ نہیں اٹھا۔ اب تو مرکز سے لے کر تلنگانہ اور ملک کے طول و عرض میں کئی حکومتیں عوام کا جینا حرام کرنے پر تل گئی ہیں۔ 

 

دنیا کی حالیہ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب حکمرانوں نے عوام کا جینا ہی دوبھر کردیا، تب تب عوام نے خود حکمرانوں کو ہی بے دخل کیا ہے۔ اور اکثر ایسے حکمرانوں کا انجام عبرتناک ہوا ہے۔ ہم کئی عرب ممالک جیسے تیونس، مصر، لیبیا وغیرہ کی مثال لے سکتے ہیں۔ ایشیا میں میانمار میں بھی ملٹری حکمرانی کو عوام کے آگے آخرکار گھٹنے ٹیکنا پڑا۔ نیپال میں بھی شہنشاہیت برخاست ہوئی اور عوامی جمہوریہ بنا۔ مودی۔ شاہ حکومت احمقانہ اقدامات کررہی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ریاستوں میں پے در پے شکست سے بھی وہ سبق لینے تیار نہیں۔ مجھے یقین ہے آج دہلی میں بھی نااہل بی جے پی کو شکست ہوگی۔ 

 

میرا تعلق اقلیتی برادری سے ہے۔ اور حکومت 99.9 فیصد اکثریتی کمیونٹی والوں کی رہتی ہے۔ یعنی جب مجھے اور میری نسلوں کو اس دھرتی پر رہنا ہے تو یہ طے ہے کہ ہمیں اکثریتی طبقے کے ساتھ اور ان کی حکمرانی میں ہی رہنا ہے۔ اس لئے ہمارے لئے بی جے پی ہو، ٹی آر ایس ہو، کانگریس ہو، سماج وادی پارٹی ہو، بہوجن سماج پارٹی ہو، جنتا دل یونائیٹیڈ ہو، ڈی ایم کے ہو یا کوئی اور، سب اکثریتی برادری سے تعلق رکھنے والوں کی ہی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ جو پارٹی انسانیت نواز پالیسیوں کے ساتھ آگے آئے گی ہم اسی کا ساتھ دیں گے۔ بی جے پی نے کبھی فرقہ پرستی میں کمی نہیں آنے دی حالانکہ اسے کم از کم شیوسینا سے سبق سیکھنا چاہئے جو این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مہاراشٹرا جیسی اہم ریاست میں حکومت چلا رہی ہے۔

 

آخر میں ٹی آر ایس اور ایم آئی ایم قیادت کو متنبہ کرنا چاہوں گا کہ وہ احمقانہ اور بزدلانہ حرکتیں چھوڑیں؛ یکم اپریل سے مجوزہ این پی آر پر عمل آوری کو روکنے میں دیگر ریاستوں کے ساتھ مل کر اقدامات کریں؛ این آر سی خودبخود غائب ہوجائے گا۔ تلنگانہ کی حکومت اور بالخصوص مسلم قیادت اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کو چھپانے کی خاطر عوام کی شہریت اور زندگی کا سودا کرنے سے باز آجائیں۔ ورنہ مجھے یقین ہے معمولی جانور بھی جب زندگی پر بن آئے تو کچھ بھی کرگزرنے تیار ہوجاتا ہے۔ ہم تو آخر انسان ہیں۔ برسراقتدار یا ان کے حلیف قائدین ہرگز زعم میں نہ رہیں تو این پی آر اور این آر سی سے صرف عوام کو مشکل پیش آئے گی اور وہ بچ جائیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ ان شاءاللہ۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: