آج کل انسانیت کس رُخ پر رواں دواں ہے سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ٹکنالوجی کے اعتبار سے انسان ترقی کرتا جارہا ہے لیکن سماج میں اخلاقی اقدار اور انسانیت کا معیار گھٹتا جارہا ہے جو نہایت تشویشناک امر ہے۔ سارے ہندوستان میں یہی دیکھنے میں آرہا ہے اور جرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ چنانچہ تلنگانہ و اے پی کا دارالحکومت شہر حیدرآباد بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے۔ 
دراصل انسان آج نہایت مادہ پسند (materialistic) ہوگیا ہے، اُس کے نزدیک دنیا کی دولت، حرص و ہوس ہی سب کچھ ہوگیا ہے۔ وہ نہ ماں باپ کی قدر کررہا ہے اور دیگر رشتے داروں اور انسانوں کا کوئی پاس و لحاظ رکھتا ہے۔ انسان میں درندگی کا عنصر اتنا بڑھ گیا ہے کہ باپ اپنی بیٹی کو تک اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں چوک رہا ہے تو اب دیگر رشتے داروں کی کیا بات کیجئے۔ بڑھتے جرائم میں جہاں یہ عناصر کا رول ہے، وہیں ٹکنالوجی بھی اپنا رول ادا کررہی ہے۔ اسمارٹ فونس، انٹرنٹ، سوشل میڈیا خاص طور پر خراب ذہنیت رکھنے والے افراد اور بچوں پر بہت منفی اثر ڈال رہے ہیں اور وہ جرائم کے ارتکاب کی طرف مائل ہورہے ہیں۔
اس پورے معاملے میں صرف حکومت اور پولیس وغیرہ ہی جرائم کا سدباب نہیں کرسکتے بلکہ تمام شہریوں کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنا اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ والدین کو دیکھنا ہوگا کہ اُن کے بچے کیا کررہے ہیں، کن کی صحبت میں رہ رہے ہیں اور اُن کے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں۔ خواتین اور مردوں کو بھی ایک دوسرے کے بارے میں پوری طرح آگاہ رہنا ہوگا۔ بیوی اپنے شوہر کی نقل و حرکت پر نظر رکھے اور شوہر کو اپنی بیوی کے تعلق سے باخبر رہنا ضروری ہے۔
علاوہ ازیں، سماجی اداروں اور غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) کا بھی جرائم کو روکنے میں بہت اہم رول ہوسکتا ہے۔ انھیں سماج میں ممکنہ حد تک گھر گھر تک رسائی حاصل کرتے ہوئے بیداری مہم چلانا ہوگا۔ کسی بھی محلہ یا گاوں میں کوئی جرم کا ارتکاب کرے تو مقامی لوگ اور پنچایت اُس کی سخت سرزنش کرے اور مناسب سزا جیسے سماجی بائیکاٹ کرے تاکہ وہ سدھر جائے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ باغی ہوجائے، اس لئے دانشمندی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بہرحال حکومتوں کے ساتھ ساتھ سماجی اداروں اور غیرسرکاری تنظیموں نیز شہریوں کو انفرادی کوششیں کرنا ضروری ہو کہ جرائم کی بڑھتی شرح پر قابو پایا جاسکے۔



Find out more: