ہر آدمی اور عورت کی زندگی میں جس طرح خونی رشتوں اور دیگر بندھنوں کی ضرورت و اہمیت ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح ہر فرد کے لیے دوست یا سہیلی بھی مساوی اہم ہوتے ہیں۔ مرد کے لیے بیوی اور لڑکی یا عورت کے لیے شوہر کا رشتہ مخصوص عمر سے پہلے قائم نہیں ہوتا ہے۔ تاہم، دوستی بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے تک قائم رہ سکتی ہے، چاہے مرد ہو کہ عورت۔ ماں باپ، بھائی بہن، شریک حیات و دیگر رشتے دار اپنی جگہ مسلمہ ہیں لیکن کسی بھی فرد کی زندگی میں کوئی دوست یا سہیلی نہ ہو تو خلا محسوس ہوتا ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ کسی بھی فرد کے چند قریبی دوست ہوتے ہیں یا چند قریبی سہیلیاں ہوتی ہیں۔ خاص طور پر قریبی دوستوں اور سہیلیوں کا ہونا زندگی کے مختلف مرحلوں میں غیرمعمولی حوصلہ بخش ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پڑھائی کے دور میں حقیقی دوست اور سہیلیاں ہی ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ جب افراد کی شادی شدہ زندگی شروع ہوتی ہے تو روزمرہ کے حالات میں تغیر آتا ہے۔ بعض جوڑوں کو مختلف نوعیت کے ازدواجی مسائل پیش آتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں بھی قریبی دوست اور سہیلیاں اپنے ذاتی تجربات اور علم کے ذریعے ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔
جو لوگ اپنے قریبی دوستوں سے باضابطہ وقفوں کے ساتھ ملتے رہتے ہیں، وہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ زندگی کے مسائل سے مایوسی کا شکار نہیں ہوتے، وہ قریبی دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق کی ہلکی پھلکی محفل میں شرکت کے بعد تازہ دم ہوجاتے ہیں، اور اپنی فیملیوں کے پاس اچھے موڈ کے ساتھ پہنچتے ہیں۔ اس طرح یہ قریبی دوستوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مثبت انداز میں گزارا گیا وقت ہر دوست کے حق میں مفید ثابت ہوتا ہے۔ تاہم، یہ حقیقت ہے کہ بالخصوص گرہست خواتین کو ایسے مواقع کم ہی میسر ہوتے ہیں۔
دوستوں کے انتخاب میں میرا مشاہدہ بلکہ کچھ ذاتی تجربہ بھی ہے کہ سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ”دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا“ کو ذہن نشین رکھنا چاہئے۔ کسی فرد کے متعدد دوست اور کسی فرد کی متعدد سہیلیاں ہوسکتی ہیں، لیکن ان میں سے چند ہی قریبی دوست یا سہیلیاں ہوسکتے ہیں جن کے ساتھ آپ اپنی زیادہ بے تکلف ہوتے ہو، جن کے ساتھ آپ اپنی اچھی بری باتیں شیئر کرسکتے ہو۔ قریبی دوست ہی عام طور پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں جو کسی نعمت سے کم نہیں۔

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: