آج گاندھی جینتی ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی کو دنیا ان کی عدم تشدد کے ذریعے ہندوستان کی آزادی کے لیے چلائی گئی تحریک کے سبب جانتی ہے۔ گاندھی جی کی اسی تحریک عدم تشدد کو دنیا نے سراہا اور 2 اکٹوبر کو ’بین الاقوامی یوم عدم تشدد‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ انڈیا میں انھیں سرکاری طور پر نہ سہی مگر ’بابائے قوم‘ سے یاد کیا جاتا ہے جو اپنے آپ میں بڑا اعزاز ہے۔


گاندھی جی کے ساتھ جڑا عدم تشدد کا اصول شاید آج سے اتنی ہی مطابقت رکھتا ہے جتنی پہلے کبھی تھی۔ بلکہ آج اس کی زیادہ ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ موجودہ مرکزی حکومت اور کئی ریاستوں میں زعفرانی پارٹی زیرقیادت حکومتوں میں گزشتہ ساڑھے پانچ سال میں جس طرح ماب لنچنگ کے ذریعے تشدد برپا کیا گیا، اب وہ ایک ساتھ وادی¿ کشمیر میں ڈھایا جارہا ہے۔ چاہے سرحدی ریاست ہو یا ملک کے داخلی علاقے تشدد کے متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں رہا، ان کو انصاف نہیں ملا بلکہ مجرمین کو محض مشتبہ ملزمین بنائے رکھ کر کچھ عرصہ بعد بری کردیا گیا ہے۔ کاش، وزیراعظم مودی، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور متعدد وزرائے اعلیٰ جیسے یوگی آدتیہ ناتھ کو آج گاندھی جی کے یوم پیدائش پر ان کا پیام عدم تشدد سمجھ آجائے۔


گاندھی جی مسلمانوں میں خاص طور پر خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکمرانی پر رشک کے لیے مقبول ہیں۔ گاندھی جی نے کہا تھا کہ حکمرانی کرو تو حضرت عمرؓ کی طرح کرنا چاہئے۔ وہ حضرت عمرؓ کے انصاف سے بہت متاثر تھے۔ ہندوستانی ہو کہ عالمی تاریخ، جانے کتنے حکمران گزرے ہوں گے، لیکن گاندھی جی نے خاص طور پر حضرت عمرؓ کی حکمرانی کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے آئیڈیل قرار دیا۔ اس کا مطلب ہے وہ کہیں نہ کہیں اسلامی نظام حکومت سے متاثر تھے۔ آج مسلمانوں کو خود اپنے نظام حکومت کی قدر ہوجائے تو ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔


مرکزی حکومت ہو کہ ریاستی حکومتیں، ہر سال گاندھی جینتی کے موقع پر کئی تقاریب منعقد کرتی ہیں اور اکثر کوئی نہ کوئی اسکیم کا اس موقع پر آغاز کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس مرتبہ بھی ایسا ضرور ہوگا۔ تاہم، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستانی حکومتیں گاندھی جی کے نام پر نمود و نمائش کے بجائے ان کے حقیقی پیغام اور اصولوں کو سمجھیں اور ان پر عمل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ گاندھی جی نے صرف عدم تشدد کی بات نہیں کی۔ وہ سماج میں انصاف چاہتے تھے۔ انھوں نے ہندوستانیوں میں مساوی شراکت داری کی وکالت کی۔ انھوں نے مذہب اور ذات کے نام پر تفریق کا درس نہیں دیا۔ آج اگر ہم یہ باتیں سمجھ جائیں تو ماحول کافی بہتر ہوسکتا ہے۔


మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: