پوسرلا وینکٹ سندھو نے ورلڈ بیڈمنٹن ورلڈ چمپئن شپ کا گولڈ میڈل جیت کر نہ صرف عظیم انفرادی کامیابی درج کرائی بلکہ بھارت کا نام بھی روشن کیا ہے۔ وہ اس لئے کہ انڈیا کو پہلی مرتبہ ورلڈ بیڈمنٹن چمپئن شپس میں گولڈ میڈل حاصل ہوا ہے، جو 24 سالہ حیدرآبادی اسٹار کی لگاتار تیسری کوشش میں حقیقت بنا۔ وہ 2017 اور 2018 میں بھی فائنل تک پہنچی تھیں لیکن ان کو سلور میڈل پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ ریو اولمپکس 2016 میں بھی شاندار کھیل کے باوجود سندھو کو اسپین کی حریف کیرولینا مرین کے مقابل نقروی تمغہ پر مطمئن ہونا پڑا تھا۔


ریو اولمپکس کے بعد ہی سے ناقدین سندھو پر نکتہ چینی کرنے لگے تھے کہ وہ خطابی مقابلوں میں دم خم کھورہی ہیں اور آخری رکاوٹ پھلانگنے سے چوک رہی ہیں۔ اتفاق سے 2017 اور 2018 کے عالمی مقابلوں میں ہوا بھی ایسا ہی، جب سندھو خطابی مقابلے جیت نہیں پائیں۔ تاہم، سندھو نے آخرکار تیسری کوشش میں کسر پوری کرتے ہوئے اتوار کو سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں جاپان کی نوزومی اوکوہارا کو محض 38 منٹ میں 21 کے مقابل 7، 21 کے مقابل 7 کے ذیعے شکست فاش دے دی، جو تاریخ کے نہایت یکطرفہ فائنل مقابلوں میں شامل ہوگیا، اور ہندوستان کو پہلی بار عالمی طلائی تمغہ ملا، جو واقعی قابل ستائش کارنامہ ہے۔ دو سال قبل اوکوہارا نے ہی سندھو کو 110 منٹ کے دم بخود کردینے والے مقابلے میں طلائی تمغہ سے محروم رکھا تھا۔ اس طرح انڈین اسٹار نے وہ شکست کا بڑی خوبی سے بدلہ لے لیا ہے۔


ریو اولمپکس سے قبل تک سندھو عملاً اپنی سینئر 29 سالہ سائنا نہوال کی پرچھائی میں نظر آتی تھیں۔ تب حیدرآباد ہی کی سائنا انڈین بیڈمنٹن میں حاوی تھیں۔ دونوں کو آل انگلینڈ چمپئن پی گوپی چند کوچنگ دیتے رہے ہیں۔ سندھو نے آخرکار خود کو سائنا کے سائے سے باہر نکالا اور کھل کر مظاہرہ شروع کیا۔ ایک طرف سائنا کی کارکردگی ماند پڑنے لگی تو دوسری طرف سندھو مائل بہ عروج نظر آئیں۔ تاہم، یہ ذکر نہ کرنا جانبداری ہوگی کہ سائنا کو پچھلے برسوں میں صحت اور فٹنس کے مسائل نے پریشان کیا ہے۔


سندھو سوئٹزرلینڈ سے اندراگاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ نئی دہلی پر پیر اور منگل کی درمیانی شب واپس ہوئیں تو ان کا پرستاروں اور میڈیا نے والہانہ استقبال کیا، جس کی وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ میڈیا سے مختصر گفتگو میں سندھو نے کہا کہ وہ اپنی کامیابی کے لیے اپنے کوچس کی محنت کے ساتھ ساتھ تمام پرستاروں کی دعاوں کے لیے بھی شکریہ ادا کرتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ ان کے لیے عظیم موقع ہے اور وہ بھارتی ہونے پر فخر کرتی ہیں۔ ورلڈ چمپئن شپس میں گولڈ میڈل ان کا عالمی مقابلوں میں پانچواں تمغہ ہے۔ وہ 2013 اور 2014 میں برونز جیت چکی تھیں۔ سندھو اب ورلڈ چمپئن شپس کے ویمنس سنگلز میں سب سے زیادہ تمغے جیتنے والی مشترک کھلاڑی ہیں۔ اتفاق سے چین کی زانگ نینگ نے بھی اسی طرح 1 گولڈ، 2 سلور اور 2 برونز میڈلز 2001 اور 2007 کے درمیان جیتے تھے۔

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: