آج کل مہنگائی کے اِس دور میں بھی حیدرآباد میں مسلمانوں کی دعوتیں جن میں کھانے کا انتظام ہو، کافی پرتعیش ہورہی ہیں۔ کھانے پر بے تحاشہ خرچ کیا جارہا ہے۔ بڑے بڑے فنکشن ہال لے کر ایسا پکوان کیا جارہا ہے جس پر لاکھوں روپئے خرچ ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ اس میں صرف دولت مند طبقہ ملوث ہے، بلکہ متوسط طبقہ کے افراد بھی شادی بیاہ کے موقع پر اپنی جھوٹی شان بتانے کیلئے اِدھر ادھر سے قرض پر، سود پر کسی نہ کسی طرح روپئے کا انتظام کرلیتے ہیں اور محض ایک وقت کے کھانے پر لاکھوں روپئے لگا دیئے جاتے ہیں۔

 

حیدرآباد کی طرح پوری ریاست میں اتنے عام پیمانے پر نہیں ہوتا بلکہ ملک بھر میں اور کوئی کمیونٹی اس طرح کرتی ہوگی جہاں کم حیثیت والے لوگ بھی قرضوں میں مبتلا ہوکر اپنی جھوٹی شان دکھانے کیلئے ایسی چیزوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے بعض اضلاع میں اور بیرون ریاست بھی بعض مقامات پر سماجی تحریک اور بیداری کے تحت عمدہ مہمات چلائے جارہے ہیں۔ وہاں شادی کے موقع پر کھانے کا انتظام سخت منع ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں پر ساری سوسائٹی دباو ڈالتی ہے۔ ان کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔

 

اس طرح کی مہم حیدرآباد میں بھی چلانے کی ضرورت ہے۔ تاہم، یہاں کے دولت مند تو کیا کمتر طبقہ کے لوگ بھی غلط روش کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ وہ اصلاح کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ رات دیر گئے تک یعنی 2 بجے آس پاس تک تقریب جاری رکھنے کی بھی حیدرآبادی مسلم فنکشنس میںبہت بری روش ہے۔ چنانچہ تقاریب کو رات 12 بجے تک محدود رکھنے کی تجویز پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی تو عوام اور شادی خانوں کے ذمہ داروں نے اسے ناکام بنا دیا۔

 

دولت مندوں اور حماقت دکھانے والے متوسط طبقہ کی دعوتوں پر پانچ لاکھ، دس لاکھ روپئے سے زیادہ خرچ کئے جانے پر افسوس ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے، اس میں آدھی رقم کی بچت بھی کریں تو کم از کم دو غریب لڑکیوں کی شادیاں کی جاسکتی ہیں۔ دراصل عصری دور میں حقوق العباد کی تعمیل میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ دولت مند سمجھنے لگا ہے کہ اگر وہ امیر ہے تو اس کی دولت بس اسی کی ہے اور اسی کی محنت سے آئی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ کوئی دولت مند ان کو غریبوں کی مدد کے بغیر دولت مند نہیں بن سکتا ۔ اس لئے امیروں پر لازمی ہے کہ وہ غریبوں کا خیال رکھیں اور فلاح و بہبود کے کام کرتے رہیں۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: