ریپسٹ پیدا نہیں ہوتے، بنتے ہیں


ہم سب کے خالق نے مسلمانوں کی عورتوں کو خصوصیت سے سورہ نمبر 24 النور کی آیت 31 میں حکم دیا ہے کہ وہ ”بھی“ (اس آیت سے عین قبل مرد افراد کو اسی طرح کا حکم دیا جاچکا ہے) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے شوہر کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے شوہر کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا نوکروں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے واقف نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پاوں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو تاکہ تم نجات پاو۔

 

اسی طرح سورہ 33 الاحزاب کی آیت 59 میں خالق حقیقی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطبت میں کہا کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں (شال وغیرہ) ڈال لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی، پھر وہ ستائی نہ جائیں گی، اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔

 

میں نے ان دو قرآنی آیتوں کا ممکنہ طور پر سادہ ترجمہ پیش کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے، جس کا پس منظر انڈیا میں لڑکیوں اور عورتوں کے خلاف تیزی سے بڑھتے جرائم ہیں، جن میں بعض تو حیوانیت کی تصویر پیش کررہے ہیں کہ سننے والے کے بھی رونگھٹے کھڑے ہوجائیں۔ میں نے کافی عرصہ سے غور کرتا رہا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ انسان تیزی سے حیوان بنتا جارہا ہے؟ اس دوران مجھے ایچ ڈبلیو نیوز نٹ ورک کے چیئرپرسن و منیجنگ ڈائریکٹر سجیت نائر کا معمول کا ایڈیٹوریل ایپی سوڈ دیکھنے کا موقع ملا۔ سجیت نائر نے یہی موضوع پر بات کی اور لڑکیوں و خواتین کے خلاف جرائم کے تعلق سے عمدہ تجزیہ پیش کیا۔ انھوں نے چار اہم موڑ کا ذکر کیا کہ آج کے پست اخلاق والے سماج میں ایسے جرائم کی شروعات معمولی معلوم ہونے والی غلطی سے ہوتی ہے اور وہ ہے ٹین ایج (تیرہ سے انیس سال کی عمر) سے اپنی ہم عمر یا اپنے سے کم یا اپنے سے زیادہ عمر والیوں کو گھورتے رہنا۔ بعض لڑکیاں اعتراض کی بجائے الٹا دبا دبا فخر محسوس کرتی ہیں کہ ان کو کوئی ستائشی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ اور بقیہ لڑکیاں مختلف وجوہات کی بنا خاموش رہ جاتی ہیں۔ بہرحال یہ دونوں طرف سے پہلی غلطی ہوئی۔

 

دوسرے مرحلے میں لڑکے اور ٹین ایج سے آگے کے نوجوان لڑکیوں اور جوان عورتوں (غیرشادی شدہ اور شادی شدہ دونوں) پر فقرے کسنے لگتے ہیں۔ یہاں بھی صنف نازک والا فریق اکثر خاموشی اختیار کرتا ہے۔ بداخلاق، بدتمیز اور شر کی طرف بڑھتے لڑکوں و نوجوانوں کی ہمت بڑھ جاتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں مختلف موقعوں پر یہ لوگ لڑکیوں و عورتوں کو کسی طرح چھونا، دھکہ دینا شروع کرتے ہیں۔ یہ پانی سر سے اونچا ہونے سے قریب والا مرحلہ ہے۔ اس موقع پر اعتراض کرنے والی شریف و مہذب لڑکیوں و خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور یہی مرحلہ پولیس (شی ٹیم وغیرہ) کی نظروں میں آسکتا ہے کیونکہ اس کا ثبوت فراہم کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ سڑک چھاپ فرہادوں کو سبق سکھایا جاتا ہے۔ مگر اس مرحلے میں بھی خاموش رہنے والیوں کی تعداد کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

 

آخری مرحلہ میں حیوانیت جوان ہوجاتی ہے اور اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ سماج میں موضوع بحث بنتا ہے۔ یوں ریپسٹ پیدا نہیں ہوتے بلکہ ہمارے سماج میں ہی بنتے ہیں۔ اب زیادہ تشویش یہ ہے کہ جنسی استحصال، ریپ، گینگ ریپ اور اس کے بعد شیطانی حرکتوں کی شکار کے سفاکانہ قتل کے واقعات تیزی سے بڑھنے لگے ہیں۔ انڈیا کی کوئی ریاست کوئی علاقہ لڑکیوں و عورتوں کیلئے محفوظ نہیں رہا۔ اس کا سدباب کیوں نہیں ہورہا ہے؟ یہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ یہ آج کے گمبھیر سوالات ہیں۔ میرے خیال میں سب سے پہلے خود فیملی ذمہ دار ہے جو بے حیائی کے لباس کو نہیں روکتی، اپنی بیٹیوں اور عورتوں کی حفاظت کے خاطرخواہ جتن نہیں کرتی۔ دوسرے نمبر پر سماج پر الزام عائد ہونا چاہئے۔ سماج میں کونسا گوشہ ہے جہاں خالق کی نازک و خوبصورت تخلیق کا وجود نہیں؟ کیا سماج کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ایسے جرائم کے خلاف بیداری مہم مستقل طور پر چلاتے رہیں؟

 

میں سمجھتا ہوں اس مخصوص معاملے میں آج کل کی لاپرواہ، بے حس، کرپٹ اور گھٹیا سیاست پر عمل پیرا حکومتوں سے کچھ خاص امید نہیں رکھنا چاہئے۔ اگر فیملی اور سماج خواب غفلت سے جاگ جائیں تو بگڑتے لڑکے کو کو شروعات میں ہی ایسا سبق سکھایا جائے کہ وہ دوبارہ اپنے گھر میں یا باہر لڑکیوں پر گندی نظر ڈالنے کی ہمت نہ کرے۔ تو ایسی قبیل کا کوئی نوجوان بننے نہیں پائے گا، پھر حیوان نما انسان کی تعداد لگاتار گھٹتی جائے گی۔ مگر یہ سب تب ہوگا جب ماں باپ اور خاندانوں کے بڑے لوگ خود اپنی سوچ کو ٹھیک کرلیں۔ مسلمانوں کیلئے تو میں نے قرآن کی آیتیں پیش کی ہیں۔ ہم سب کے رب کے حکم کا واسطہ دیا ہوں۔ اس کے بعد اگر کوئی گڑھے میں گرنا چاہے تو میں کیا روکوں گا، خود اوپر والا پر انھیں نہیں بچائے گا کیونکہ اوپر والے کا اصول ہے کہ جیسا بووگے ویسا کاٹوگے۔

 

ہمارے غیرمسلم ابنائے وطن کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ راہ حق پر آئیں یا نہ آئیں، ان کی چوائس ہے مگر سماج میں تو تمام مذاہب والوں کو مل جل کر رہنا ہے۔ فیمیل کمیونٹی کے حلاف جرائم کوئی مذہب سے مخصوص نہیں۔ اس لئے وہ اگر اپنی بیٹیوں اور عورتوں کو پردہ کرائیں اور اپنے شیطانی چکر میں پھنسنے والے اپنے لڑکوں و مردوں کی خوب خبر لیں تو ہندوستان سے یہ گھناونے جرائم قابل لحاظ حد تک کم ضرور ہوسکتے ہیں۔ ویسے خوشی کی بات ہے کہ ہمارے دیش کے بعض ریاستوں و علاقوں جیسے راجستھان، اترپردیش وغیرہ میں غیرمسلم خواتین پردہ کا اہتمام پہلے سے کرتی ہیں۔ اگر اس احتیاطی تدبیر کو وسعت دی جائے تو خود سماج کا بھلا ہوگا۔ دیکھنا ہے کسے توفیق ہوتی ہے اور کسے نہیں؟

ٌ ٌ ٌ

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: