تلنگانہ حکومت اور محکمہ پولیس گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مسخرہ پن کی مورت بنتے جارہے ہیں۔ سی پی آئی لیڈر کنہیا کمار کو سی اے اے، این پی آر، این آر سی کی مخالفت میں حیدرآباد میں پی وی این آر اکسپریس وے کے متوازی ایک فنکشن ہال میں احتجاجی جلسہ عام منعقد کرنے کی پرمیشن دینے کے بعد منسوخ کردی گئی۔ قلب شہر سے دور یہ کوئی ریلی نہ تھی بلکہ فنکشن ہال میں جلسہ عام تھا لیکن یہ بھی مودی حکومت کے ”غیرمعلنہ“ ایجنٹ ٹی آر ایس حکومت کو پسند نہیں آیا۔ دو ہفتے قبل حیدرآباد میں ’ملین مارچ‘ کے تعلق سے بھی ایسا ہی کیا گیا تھا۔ بعد میں ہائیکورٹ نے ’ملین مارچ‘ کی اجازت دی اور لاکھوں لوگوں نے اسے حیدرآباد کا تاریخی احتجاجی مارچ بنایا۔ اب کنہیا کمار کے معاملے میں بھی یہی ہونے جارہا ہے۔ تاہم، کے سی آر حکومت اور پولیس ڈپارٹمنٹ جس طرح مسخرہ پن کررہے ہیں وہ بچکانہ معلوم ہورہا ہے۔ ایک مرتبہ عدالت نے عملاً ان کی سرزنش کی ہے اور ملین مارچ کی اجازت دی۔ انھیں سمجھ نہیں آیا۔ اب دوبارہ کنہیا کمار کے جلسہ عام کیلئے وہ شاید یہی چاہتے ہیں۔

 

ملک بھر میں مخالف سی اے اے، این پی آر اور این آر سی احتجاج چل رہا ہے۔ لگ بھگ پورا شمال مشرق، مغربی بنگال، مہاراشٹرا، کیرالا، پنجاب، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان نہ صرف احتجاج کررہا ہے بلکہ کیرالا اسمبلی نے تو سی اے اے کی مخالفت میں قرارداد بھی منظور کی ہے۔ ممتا بنرجی نے بھی کھلے طور پر اعلان کررکھا ہے کہ ان کی ریاست میں کوئی بھی متنازع قانون یا عمل لاگو نہیں کیا جائے گا۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے کا حصہ نہیں ہیں۔ پھر بھی ہر متنازع فیصلے اور اقدام میں وہ 2014 سے مودی حکومت کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ 

 

کے سی آر کو زیادہ بزدل کہا جائے یا زیادہ مکار کبھی فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ انھوں نے اپنی پارٹی ٹی آر ایس 2001 میں متحدہ آندھرا پردیش میں تشکیل دی۔ تین سال بعد 2004 میں ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کی قیادت میں کانگریس کو اقتدار حاصل ہوا۔ این چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم حکومت کو عوام نے مسترد کردیا اور علحدہ تلنگانہ کے نام ٹی آر ایس بھی294 رکنی اسمبلی میں محض 18 نشستیں جیت پائی۔ کے سی آر نے نہ کوئی احتجاج کیا، نہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے۔ راج شیکھر ریڈی کے دور میں کے سی آر کی ایک نہ چلی۔ وہ 2009 کے اسمبلی چناو میں بھی کچھ نہ کرسکے۔ عوام نے دوبارہ تلگودیشم اور ٹی آر ایس کو مسترد کردیا تھا۔ 2009 کا الیکشن جیتنے کے اندرون چار ماہ راج شیکھر ریڈی ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوگئے۔ تب کے سی آر کو تلنگانہ کے نام پر بھوک ہڑتال یاد آئی۔ آخرکار جون 2014 میں مرکز کی ڈاکٹر منموہن سنگھ زیرقیادت یو پی اے حکومت نے علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دی۔ کے سی آر سب کچھ فراموش کرچکے ہیں۔ یہ ان کی زبردست مکاری ہے۔

 

12 ڈسمبر 2019 کو شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) منظور ہونے کے ساتھ ہی ملک بھر کے مختلف حصوں میں احتجاج شروع ہوگیا۔ شمال مشرقی ہند کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بی جے پی مخلوط اقتدار کا حصہ ہونے کے باوجود وہاں سب سے پہلے احتجاج شروع ہوا کیونکہ ان کا اعتراض واضح اور سیدھا سادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی غیرملکی نہیں آنا چاہئے۔ موجودہ وسائل ان کیلئے ہی کم پڑرہے ہیں۔ ان حالات میں وہ غیرمقامی بلکہ غیرملکی شہریوں کو اپنے پاس بسانے کے اہل نہیں ہوسکتے۔

 

اس کے بعد ممتا بنرجی کی قیادت مغربی بنگال مرکزی حکومت کے قانون کے خلاف آگے آیا۔ چیف منسٹر ممتا بنرجی نے تو ملک میں انوکھی تاریخ رقم کرتے ہوئے متواتر دو دن سڑک پر زبردست احتجاجی ریلیوں کی قیادت کی۔ پھر کیا تھا، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک احتجاج پھیلتا گیا۔ اس درمیان 15 ڈسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں دہلی پولیس نے بربریت مچائی، جس کے ساتھ مخالف سی اے اے، این پی آر اور این آر سی میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس شامل ہوگئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں بھی تشدد ہوا۔ پولیس اور انتظامیہ نے کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی بلکہ الٹا اسٹوڈنٹس کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: