آفس کا کام ہو، گھر گرہستی کی مصروفیت ہو، بزنس کی سرگرمی ہو یا پڑھائی میں مسلسل یکسوئی ہو یا پھر کسی بھی دیگر نوعیت کے کام اور شعبے سے وابستہ رہیں جن کا تعلق فیملی کیلئے درکار کمائی سے ہو، مرد ہو کہ عورت یا لڑکا ہو کہ لڑکی ہر کوئی ہفتہ بھر کی مشغولیت کے بعد ذہنی طور پر تھکن محسوس کرتا ہے۔ اسے تناو کا احساس ہوتا ہے جسے آئندہ ہفتے نئے جوش و تازگی کے ساتھ شروعات کیلئے دور کرنا ضروری ہے۔ میرا مطلب ذہنی و جسمانی تھکن اور تناو کو دور کرنے والی ہلکی پھلکی سرگرمیوں سے ہے۔ 

 

یوں تو زیادہ تر نوجوان اور اَدھیڑ عمر کے لوگ روزانہ ہی کم یا زیادہ ورزش (اکسرسائز) کے عادی ہوتے ہیں لیکن ہفتہ وار چھٹی کے روز اکسرسائز میں کچھ نئے انداز آزمانا اچھا موقع ہوسکتا ہے۔ فیملی کو زیادہ وقت دینا اور فرینڈز کے ساتھ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ کچھ وقت گزارنا ذہنی سکون حاصل کرنے اور تناو دور کرنے کی بہت کارگر و آزمودہ ترکیب ہے۔ انسانی صحت کیلئے ہنسی مذاق بھی مفید ہے۔ اب وہ چاہے ازخود ہلکی پھلکی تحریر پڑھتے ہوئے یا کوئی دیگر سرگرمی میں مشغول ہوکر ہنسنے کے مواقع ڈھونڈ سکتا ہے، یا اس کیلئے فیملی اور دوست اہم ثابت ہوسکتے ہیں، یا وہ حقیقی تفریحی و مزاحیہ فلمیں بھی بڑا محظوظ کرسکتی ہیں۔ پُرسکون، دل نشین اور سریلی موسیقی بھی مفید ہوسکتی ہے۔ 

 

یوں تو اضطراب و تناو آپ کے کام کے مقام پر اور شخصی زندگی میں پیدا ہوسکتے ہیں ، لیکن اور بھی کئی سادہ طریقے ہیں جو آپ پر دباو کو گھٹا سکتے ہیں۔ یہ سب سرگرمی آپ کا ذہن تناو کی وجہ سے ہٹانے کیلئے ہوتی ہے۔ اکسرسائز، موسیقی، فلم بینی اور شریک حیات کے ساتھ جسمانی تسکین کا حصول ، یہ سب اضطراب کو دور کرنے کا کام کرسکتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں آپ کے مجموعی توازن کام۔ زندگی میں بہتری بھی لائیں گے۔ 

 

غیرشادی شدہ افراد کو کوئی بھی مذہب جنسی عمل میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن ایسے افراد کو شادی سے کسی نے روکا ہوا نہیں ہے۔ ان کو چاہئے کہ غیرضروری ٹارگٹس نہ بنائیں بلکہ اپنی شخصی زندگی کی بھلائی کو ترجیح دیں۔ ٹارگٹس کو اچیوو کرنے زندگی پڑی ہے۔ پھر بھی کسی کیلئے شادی فوری طور پر ممکن نہیں ہے تو اس کیلئے دوسرا پہلو دیکھیں ۔ وہ نسبتاً آزاد ہے اور اس موقع سے بھرپور محظوظ ہوسکتا ہے۔ کئی نوجوان (18 تا 30 سال)اپنے ٹاون، اپنے شہر، اپنی ریاست میں گھوم پھر کا اپنی ثقافت اور تاریخی میراث کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ کسی کو مالی رکاوٹ نہیں تو وہ بیرون ملک سیر و تفریح کا شوق بھی پورا کرسکتے ہیں۔ 

 

بہرحال مختصر یہ کہ میرا ذاتی تجربے اور سماج میں عام مشاہدے کی بناءکہہ رہا ہوں کہ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ان کی محنت و مشقت کے اعتبار سے ذہنی دباو کرنے کیلئے وقفے وقفے سے ہلکی پھلکی سرگرمی میں مشغول ہونا ضروری ہے۔ بچوں کی تفریح گھر تک، پڑوس تک، ٹاون یا سٹی تک محدود ہوسکتی ہے۔ ان کیلئے اتنا کافی ہے۔ یہی معاملہ بوڑھوں کے ساتھ ہونا چاہئے۔ ان دونوں کے درمیان کی عمر والوں کیلئے مذکورہ بالا طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں۔ ”اچھے رہئے، خوش رہئے۔“
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: