ڈاکٹر کفیل خان اگست 2017 سے گردش میں ہیں۔ ان کا تازہ تنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ (یو پی) ڈسمبر میں منعقدہ ریلی میں کی گئی ’تقریر‘ ہے۔ اس تقریر کے دوسرے ہی روز 37 سالہ ڈاکٹر کفیل کو آئی پی سی (تعزیرات ہند) کے دفعات 153A اور 295A کے تحت ایف آئی آر میں ماخوذ کیا گیا۔ یہ دفعات مذہبی منافرت پھیلانے اور پُرامن ماحول کو بگاڑنے سے متعلق ہیں۔ چنانچہ اس ایف آئی آر کے تحت وہ محروس کرلئے گئے۔ چند دن گزرے تھے کہ ان کے خلاف سخت تر نیشنل سکیورٹی ایکٹ (این ایس اے) لاگو کردیا گیا۔ اس قانون کے تحت فوری نہ ٹرائل ہوتا ہے اور نہ وکیل کو ملاقات کی اجازت ہوتی ہے۔

 

چیف منسٹر اترپردیش ’یوگی ‘ آدتیہ ناتھ کی نظروں میں ڈاکٹر کفیل اگست 2017 سے مسلسل کھٹک رہے ہیں۔ چیف منسٹر اپنا اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ میں ہی بابا راگھو داس میڈیکل کالج ، گورکھپور میں 70 بچوں کی اموات کا سانحہ پیش آیا تھا۔ تب بی آر ڈی میڈیکل کالج میں ڈاکٹر کفیل ڈپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس سے بحیثیت لیکچرر وابستہ تھے۔ ڈاکٹر کفیل بچوں کے وارڈ میں آکسیجن سلنڈروں کی کمی سے حکام کو کئی بار واقف کرا چکے تھے لیکن کوئی عمل نہیں ہوا۔ آخرکار آکسیجن کی قلت ہی سانحہ کی وجہ بنی، لیکن نئے چیف منسٹر نے بی آر ڈی میڈیکل کالج انتظامیہ کی غلط رپورٹنگ پر مسلم ڈاکٹر کو ’قربانی کا بکرا‘ بناتے ہوئے اسے سزا دینے میں ذرا دیر نہ کی۔ ڈاکٹر کفیل کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اور نو ماہ بعد وہ ضمانت پر رہا ہوئے۔ حکومت کی مقررہ انکوائری کمیٹی نے ستمبر 2019ءمیں ڈاکٹر کفیل کو الزامات منسوبہ سے بری کردیا۔ 

 

گورکھپور کے متوطن ڈاکٹر کفیل کا تعلق معزز اور تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔ میڈیکل انٹرنس ٹسٹ میں کل ہند سطح پر 30 واں رینک پانے کے بعد کفیل خان نے ایم بی بی ایس اور ایم ڈی (پیڈیاٹرکس) کی ڈگریاں کستوربا میڈیکل کالج، منی پال، کرناٹک سے حاصل کئے۔ ڈاکٹر کفیل نے ابتداءمیں گینگٹوک (سکم) کے کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ ڈاکٹر کفیل کی اہلیہ بھی ڈاکٹر ہے اور پرائیویٹ کلینک چلاتی ہیں۔ اس جوڑے کو ایک کم عمر بیٹی ہے۔

 

ڈاکٹر کفیل کی فیملی بھی اگست 2017 سے مسلسل آزمائشوں سے گزر رہی ہے۔ اس مدت میں اُن کے بھائی کاشف جمیل پر نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کی، جس میں وہ شدید زخمی ہوئے مگر خوش قسمتی سے جانبر ہو گئے۔ ڈاکٹر کفیل نے اس حملہ کیلئے بی جے پی رکن پارلیمنٹ کملیش پاسوان پر الزام عائد کیا، مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جولائی 2018 میں ایک رپورٹ آئی کہ ڈاکٹر کفیل دیوالیہ ہوگئے۔ انھوں نے بتایا کہ لوگوں نے اُن کے بھائیوں کے ساتھ بزنس روک دیا ہے کیونکہ وہ چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کو غصہ دلانے سے خائف ہیں۔

 

لڑائیوں اور جنگوں کے معاملوں میں ہم اکثر و بیشتر دیکھتے ہیں کہ فریقین جب پریشان ہوجاتے ہیں یا اُن کے وسائل میں کمی ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو ”سیزفائر“ (فائربندی لڑائی بندی) کی پیشکش کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ پیشکش فریقین خوشی سے قبول کرلیتے ہیں اور مستقبل کیلئے نئی حکمت عملی اور تیاری میں جٹ جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ڈاکٹر کفیل سے اگست 2017 میں یوگی حکومت کی جانب سے ’نشانہ‘ بنائے جانے اور پھر بچوں کی اموت کے کیس میں بری ہوجانے کے بعد سے ایک نمایاں غلطی سرزد ہورہی ہے۔ ڈاکٹر کفیل کو رہنا تو یو پی میں ہی ہے۔ چنانچہ ”سمندر میں رہ کر مگرمچھ سے بیر کیسے“ کے مصداق انھیں اپنی ’پرائم ایج‘ کا سوجھ بوجھ سے استعمال کرنا چاہئے تھا۔ 

 

تاہم، وہ ملک کے طول و عرض میں اپنے پیشے کے ساتھ ساتھ دیگر سرگرمیوں کے سلسلے میں سفر کرنے لگے۔ اس دوران انھوں نے میڈیا کو کئی انٹرویو دیئے اور یوگی حکومت کے دشمنانہ رویہ سے پورے دیش کو واقف کرانے کی کوشش کی۔ سچ بولنا جرم نہیں بلکہ بہت اچھی بات ہے مگر دشمن کی چال کا آسان شکار ہوجانا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟ میری نیک خواہشات ہے کہ باصلاحیت ڈاکٹر متنازع تقریر کے موجودہ کیس سے بھی باعزت بری ہوں گے۔ ان شاءاللہ۔ تاہم، اس کے بعد ڈاکٹر کفیل کو اپنی ڈگر تبدیل کرنی ہوگی۔ ڈاکٹر کفیل کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ ڈاکٹری سے ہٹ کر اپنی دیگر سرگرمیاں ماند کردیں۔ اپنے پیشے اور فیملی پر زیادہ توجہ دیں۔ سی اے اے ہو کہ این پی آر یا این آر سی، کروڑوں ہندوستانی مسلمان ہیں جو سیاہ قوانین کے خلاف کامیاب جدوجہد کررہے ہیں اور کامیاب بھی ہوں گے۔ ان شاءاللہ۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: