جموں و کشمیر سے خصوصی درجہ چھین لینے کے تقریباً تین ماہ بعد بھی وہاں حالات معمول پر نہیں آئے ہیں، عام زندگی عملاً مفلوج ہے۔ اسے چھپانے کی حکومت ہند لاکھ کوششیں کررہی ہے لیکن اس کی کوششیں خود حقیقت ِ حال کا پتہ دے رہے ہیں۔ مودی حکومت نے اتنے عرصے میں ملک سے کسی بھی سیاسی وفد کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ تمام نمایاں کشمیری قائدین بدستور نظربند محروس ہیں۔ اس کے باوجود کشمیر کے نظم و نسق نے سیاحوں کیلئے وادی کو کھولتے ہوئے بقیہ ملک اور دنیا کو یہ جھانسہ دینے کی کوشش کی ہے کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ہے۔ کیا اسی کو سب کچھ ٹھیک کہتے ہیں کہ لگاتار تین ماہ سے کشمیریوں نے خاموش احتجاج کے تحت اپنی معمول کی سرگرمیوں اور کاروبار کو بند رکھا ہوا ہے؟


اس درمیان مودی حکومت نے ایک اور حربہ سے کام لیتے ہوئے یورپی یونین (ای یو) کے وفد کو کشمیر کے دورے کی دعوت دی، جس نے منگل کو وادی کا دورہ شروع کیا۔ دراصل یہ ای یو کا غیرسرکاری وفد ہے حالانکہ وہ یورپی پارلیمان کے ارکان ہیں، لیکن یورپین یونین نے سرکاری طور پر اس دورے کا اہتمام نہیں کیا ہے۔ یورپین یونین کا قیام پڑوسیوں کے درمیان وقفے وقفے سے خونریز جنگوں کو ختم کرنے کے مقصد سے ہوا، اور یہ جنگیں آخرکار دوسری جنگ عظیم کے ساتھ اختتام پذیر ہوئیں۔ 1950 سے یورپین کول اینڈ اسٹیل کمیونٹی نے یورپی ملکوں کو معاشی اور سیاسی طور پر متحد کرنا شروع کیا تاکہ دیرپا امن قائم کیا جاسکے۔ ای یو کا سب سے بڑا شہر لندن ہے یعنی برطانیہ کا دارالحکومت۔ ہندوستان پر سب سے زیادہ مدت تر اور وسیع تر علاقے پر برطانوی راج رہا۔ برطانیہ کو ہندوستان چھوڑے 72 سال ہوچکے ہیں اور اب خود وہ یورپی یونین سے اپنا ناطہ توڑنے داخلی سطح پر کشاکش سے گزر رہا ہے۔ اس پس منظر میں اگر یورپی یونین کا سرکاری وفد بھی کشمیر کا دورہ کرلیتا تو اس کی کیا اہمیت ہوتی۔ انڈیا اور پاکستان کے باہمی مسئلہ کشمیر سے یورپی یونین کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ پھر مودی حکومت 23 رکنی غیرسرکاری وفد یورپی یونین کو کشمیر کی سیر کراتے ہوئے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟


ظاہر ہے یورپی یونین کا موجودہ وفد اس کے سوا اور کیا کرے گا کہ مودی حکومت کو کشمیر کے بارے میں کلین چٹ دے گا اور بیان دے گا کہ دستورِ ہند کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ اور جموں و کشمیر کی دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم انڈیا کا داخلی معاملہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح بی جے پی حکومت اور ان کی مادر تنظیم آر ایس ایس کب تو بقیہ ملک اور بقیہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک پائیں گے جنھوں نے ابھی مودی حکومت کے خلاف سخت موقف اختیار نہیں کیا ہے؟

مسلسل پریشانیوں میں گھرے کشمیریوں نے اپنی طویل خاموشی توڑنے کا صحیح موقع منتخب کیا اور یورپی یونین کے وفد کا دورہ کشمیر کے نظم و نسق، سکیورٹی فورسیس اور حکومت ہند کیلئے تلخ بنا دیا۔ منگل کو ایک طرف بیرونی وفد کا دورہ آغاز ہوا، تو وادی میں کئی جگہوں پر کشمیریوں نے احتجاج شروع کردیا، جسے روکنے سکیورٹی فورسیس نے معمول کے مطابق طاقت کا استعمال کیا۔ نتیجتاً احتجاج نے تشدد کی شکل اختیار کرلی اور چند افراد زخمی ہوگئے۔ یورپی یونین کے ایم پیز جہاں جہاں سے گزر رہے تھے انھیں سڑکیں سنسان دکھائی دیں، یہاں تک کہ انھیں مشہور ڈل جھیل کی سیر کرائی گئی۔  منگل کو بیرونی وفد کے دورہ کشمیر کے روز ہی دہشت گردوں نے پانچ غیرکشمیری مزدوروں کو ہلاک کردیا، جن کا تعلق مغربی بنگال سے تھا۔ شاید اسے ہی حکومت ہند معمول کی صورتحال قرار دے رہی ہے کیوں کہ ایسا تو برسہا برس سے وہاں ہوتا آرہا ہے۔


وفد یورپی یونین کے دورہ کشمیر کے معاملے میں حکومت ہند پر اس سے بڑھ کر کیا تنقید ہوگی کہ خود برسراقتدار بی جے پی کے لیڈر سبرامنیم سوامی نے اسے ’غیراخلاقی‘ اقدام قرار دیا ہے۔ انھوں نے ٹوئٹ کیا کہ انھیں تعجب ہے کہ وزارت امور خارجہ نے یورپین یونین ایم پیز کے دورہ کشمیر کا خانگی طور پر اہتمام کیا ہے۔ یعنی یہ ای یو کا سرکاری وفد نہیں ہے۔ یہ خارجہ پالیسی کا بگاڑ ہے۔ سابقہ چیف منسٹر جموں و کشمیر محبوبہ مفتی جن کی پارٹی ( پی ڈی پی ) نے متحدہ ریاست جموں و کشمیر کی آخری جمہوری حکومت میں بی جے پی کو شراکت دار بنایا، انھوں نے تعجب کیا کہ جب یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کشمیر کا دورہ کرسکتے ہیں تو امریکی سنیٹرز کیوں نہیں؟ انھوں نے کہا کہ جاریہ دورے کے بعد کشمیر میں ’معمول کی صورتحال‘ ہونے کے سرٹفکیٹ دیئے جائیں تو انھیں تعجب نہیں ہوگا۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے کہا کہ یورپ کے ایم پیز کو مخصوص رہنمائی میں کشمیر کا دورہ کرانا جبکہ ہندوستانی ایم پیز کو وہاں جانے سے روکا جارہا ہے، یہی عکاسی کرتا ہے کہ سارے معاملے میں بہت کچھ غلط ہے۔

---

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: