ہندوستان واقعی بدل گیا ہے۔ اس کی تازہ مثال مہاراشٹرا میں ہفتہ کو دیویندر فرنویس ( بی جے پی ) کی بطور چیف منسٹر اور اجیت پوار ( این سی پی ) کی بطور ڈپٹی چیف منسٹر حلف برداری ہے۔ 24 گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ شیوسینا، این سی پی اور کانگریس نے ریاست اور ملک کی تاریخ میں اپنی نوعیت کے منفرد اتحاد کو قطعیت دی تھی اور تینوں پارٹیوں کے قائدین غوروخوض و مذاکرات کے طویل اجلاس سے متفق ہوکر باہر آئے کہ صدر سینا ادھو ٹھاکرے مجوزہ مخلوط حکومت کی قیادت کریں گے یعنی وہ نئے چیف منسٹر مہاراشٹرا ہوں گے۔ اس کا ہفتہ کو جوائنٹ پریس کانفرنس میں باضابطہ اعلان کرنا طے ہوا تھا۔ 

 

نئے اتحاد میں این سی پی سربراہ شرد پوار پیش پیش رہے اور جمعہ کی رات کہا جانے لگا کہ انھوں نے موجودہ دور کی سیاست کے نام نہاد چانکیہ امیت شاہ ( صدر بی جے پی ) کو مات دے دی ہے جو اپنے سیاسی گرو اور وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ مل کر گزشتہ پانچ، چھ سال میں کئی ’ کارنامے ‘ انجام دے چکے ہیں۔پوار ، سینا اور مہاراشٹرا پردیش کانگریس والوں کو مغالطہ ہوگیا تھا کہ آج کی سیاست میں اس طرح شرافت سے مذاکرات کے ذریعے جیت حاصل کی جاسکتی ہے۔ گورنر مہاراشٹرا بھگت سنگھ کوشیاری، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیراعظم مودی اور صدرجمہوریہ رامناتھ کووند نے چند گھنٹوں میں ان کی خوش فہمی دور کردی۔ 

 

26 مئی 2014ءسے قبل ہندوستان میں ایمرجنسی ( 1975 )کو ہی ہنگامی صورتحال کہتے تھے۔ بی جے پی نے ’ ایمرجنسی ‘ کے معنی بدل دیئے ہیں۔ اب ایمرجنسی کے معنی اپنی مرضی کے خلاف کوئی تبدیلی قطعی مرحلہ تک پہنچ جائے تو اسے روکنے رات کے کسی بھی پہر کو صدرجمہوریہ جیسے اعلیٰ ترین دستوری عہدے داروں یا سی بی آئی جیسے اداروں کے اعلیٰ حکام حتیٰ کہ فوجی سربراہوں کو بھی جگا کر ان سے اپنی مرضی کے مطابق سرکاری احکام جاری کرائے جاسکتے ہیں۔ میں ہوا میں باتیں نہیں کررہا ہوں۔ مودی کے ’ اچھے دن ‘ والے دورِ حکومت میں سی بی آئی سربراہ کی تبدیلی، لوک سبھا الیکشن 2019 سے قبل پاکستان مقبوضہ کشمیر کے بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائک، اور اب مہاراشٹرا میں راتوں رات صدر راج برخاست کرتے ہوئے دن میں چیف منسٹر و ڈپٹی چیف منسٹر کی حلف برداری سے بڑھ کر اور کیا حقیقی مثالیں چاہئیں؟

 

صدر سینا ٹھاکرے نے ریاست میں ہفتہ کو اچانک سیاسی تبدیلی بجا تبصرہ کرتے ہوئے اسے ’ پولیٹیکل اسٹرائک ‘ قرار دیا ہے۔ شرد پوار نے واضح کردیا کہ ان کے بھتیجہ نے پارٹی ( این سی پی ) سے دغا کی اور پارٹی کا جونیئر پوار کے فیصلے سے کوئی سروکار نہیں۔ صدر این سی پی نے بتایا کہ زیادہ سے زیادہ 10 تا 12 ایم ایل ایز کو ورغلایا جاسکتا ہے اور اجیت کو لیجسلیچر پارٹی لیڈر کے عہدہ سے برطرف کیا جاچکا ہے۔ ان کی ایم پی دختر سپریا سولے نے بھی اپنے کزن اجیت کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ ان کو پوار فیملی نے بھرپور پیار دیا جس کے جواب میں نئے ڈپٹی چیف منسٹر نے اپنی حقیقی پارٹی سے غداری کی ہے۔ پھر ایک بار بتا دوں کہ پوار اور سپریا اب بھی نئے دور کو سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ اب جھوٹ و سفید جھوٹ، دھوکہ دہی، جائز و ناجائز، دغابازی، بدعنوانی، دھمکانا، رشوت دینا وغیرہ کے معنی و مطالب یکسر بدل چکے ہیں۔ 

 

مودی حکمرانی میں جب کوئی ’ ناجائز ‘ کام اکثریتی طبقہ یا برسراقتدار بی جے پی یا اس کا کوئی لیڈر یا اتحادی قائد جیسے نتیش کمار کرے تو وہ خودبخود ’ جائز ‘ بن جاتا ہے۔ وہی کام اگر اپوزیشن اور اقلیتی برادریوں میں سے کوئی کرے تو ’ ناجائز پن ‘ برقرار رہتا ہے اور اس کی کڑی سزا دی جاتی ہے۔ ان کی مثالیں اترکھنڈ، آندھرا پردیش، جموں و کشمیر، گوا، منی پور ، کرناٹک وغیرہ میں گزشتہ چار، پانچ سال میں بی جے پی کی حکومت سازی یا سیاسی اتحاد کیلئے ’ ناجائز ‘ حرکتیں ہیں۔ اسی طرح سنجیو بھٹ کو سچ بولنے کی سزا دینا ضروری تھا، چنانچہ ان کو جیل پہنچا دیا گیا۔ لالو پرساد یادو، سونیا گاندھی، راہول گاندھی، پی چدمبرم، ممتا بنرجی، ڈی شیوا کمار، این چندرا بابو نائیڈو، شرد پوار، تمام کشمیری قائدین کا حشر میرے مذکورہ دوسرے جملے کی مثالیں ہیں۔

 

مرکزی وزیر اور مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے نتن گڈکری کو بالعموم معقولیت پسند لیڈر مانا جاتا ہے۔ ان کو اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے مناسب موقع نہیں مل رہا تھا۔ چنانچہ جمعہ کو جب سینا، این سی پی، کانگریس کا مخلوط عملاً قطعیت پاگیا اور سینا کی قیادت میں نئی حکومت مہاراشٹرا کے آثار روشن ہوئے، تب گڈکری نے کہا کہ یہ ’ ناجائز اتحاد ‘ ہے اور عوام کے دیئے گئے خط اعتماد کے مغائر ہے۔ ماقبل ریاستی چناو بی جے پی اور شیوسینا اتحادی تھے۔ نتائج کے بعد شیوسینا اپنے مطالبات تسلیم نہ کئے جانے پر بی جے پی سے دور ہوگئی اور این سی پی و کانگریس سے اتحاد کی طرف بڑھ گئی، جو دراصل یکساں بنیاد رکھتے ہیں۔ ماضی میں شرد پوار کانگریس لیڈر کی حیثیت سے ہی چیف منسٹر مہاراشٹرا تھے۔ اور 1999 میں غیرسیاسی وجہ پر انھوں نے سونیا گاندھی زیرقیادت کانگریس سے علحدہ ہوکر نیشنلسٹ کانگریس پارٹی تشکیل دی تھی۔ بہرحال گڈکری کو سینا کا این سی پی و کانگریس سے اتحاد ’ ناجائز ‘ معلوم ہوا۔ اب وہی این سی پی کے لیجسلیچر پارٹی لیڈر اجیت پوار کو منحرف کراتے ہوئے بی جے پی کا اتحادی بنانا گڈکری کی نظر میں ’ جائز ‘ اتحاد ہے۔ واہ، گڈکری صاحب، بہت خوب۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: