وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز جھارکھنڈ میں انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران کہا کہ ان کی حکومت نے پیچیدہ مسئلہ کشمیر کو یوں چند برسوں میں حل کردیا۔ اس سے کہیں حساس اور دیرینہ ایودھیا کیس کی یکسوئی بھی کردی، جسے کانگریس حکومتوں نے طویل عرصے سے ووٹ بینک کی سیاست کے پیش نظر ٹالے رکھا تھا۔ جموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی تنسیخ واقعی سیاسی فیصلہ رہا جسے بی جے پی حکومت نے پارلیمنٹ سے منظور کرالیا۔ ایودھیا کیس متنازع اراضی کی ملکیت کا جھگڑا ہے جو قانونی عدالت طے کرتی ہے۔ آرٹیکل 370 کا بھلا اس معاملے سے کیا تقابل ہوسکتا ہے؟

 

وزیراعظم کو پہلے تو ابتداءہی سے بے موقع و محل موضوعات چھیڑنے کی عادت ہے۔ وہ اپوزیشن پر تنقید کرنا ہو تو بیرونی سرزمین پر کرتے ہیں۔ ملک میں کہیں بھی چھوٹی بڑی ریاست کا اسمبلی الیکشن ہو، مرکزی حکومت اور دفتر وزیراعظم ( پی ایم او )کا کام کاج چھوڑ کر ’ وزیراعظم بی جے پی ‘ کی حیثیت سے وہاں جاکر اپنے سینہ پر کنول کا انتخابی نشان لگا کر انتخابی مہم چلاتے ہیں بلکہ اپنے کابینی رفقاءکو بھی اس مہم میں جھونک دیتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، وہاں وزیراعظم سے لے کر تمام مرکزی بی جے پی وزراءمل کر اپنی انتخابی تقاریر میں زیادہ تر وقت ایسے موضوعات پر چیخ چیخ کر نیشنل اپوزیشن کو چیلنج کرتے ہیں جن کا ریاستی چناو سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ 

 

علاوہ ازیں، ہمارے وزیراعظم کو ’ شیخی بگھارنے ‘ کی بھی عادت ہے۔ چنانچہ وزیراعظم نے ایودھیا فیصلہ کا کریڈٹ اپنی حکومت کو دے دیا۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ اگر وزیراعظم سرعام دعویٰ کررہے ہیں کہ ایودھیا کیس ان کی حکومت نے حل کیا ہے تو سپریم کورٹ اور عدلیہ کا وقار ہی کیا رہ جائے گا؟ اور اگر مودی کا دعویٰ جھوٹا ہے تو سخت قابل گرفت ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے یہ معاملہ زور و شور اٹھایا جانا چاہئے۔ عام تاثر ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں میں سرکاری وکلاءکے ذریعے حکومتوں کے دخل ضرور رہتا ہے۔ تاہم، خالص ملکیت کے مقدمہ میں مرکزی حکومت کا پوشیدہ طور پر دخل دے کر ریاستی اسمبلی کے انتخابی جلسہ میں اپنے کارنامہ کے طور پر پیش کرنا بے شرمی نہیں تو اور کیا ہے؟ وزیراعظم کے عمل نے 9 نومبر کے سپریم کورٹ فیصلہ کو مزید مشکوک بنا دیا ہے کیونکہ اس پر پہلے ہی متعدد شبہات اور سوالات اٹھ چکے ہیں۔

 

ایودھیا میں متنازع بابری مسجد۔ رام جنم بھومی اراضی کی ملکیت کا مقدمہ طویل عرصے سے چل رہا تھا۔ 2010 میں جب مرکز میں یو پی اے حکومت تھی، الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع اراضی کی ملکیت کے مقدمہ میں اپنا قطعی فیصلہ سناتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اس زمین کو تین فریقوں میں تین مساوی حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ فریقوں نے یہ فیصلہ تسلیم نہ کیا اور وہ سب سپریم کورٹ سے رجوع ہوگئے۔ عدالت عظمیٰ نے باہمی اور دوستانہ یکسوئی کیلئے موقع دیتے ہوئے تین رکنی ثالثی پیانل تشکیل دیا کہ وہ فریقوں کو عدالت سے باہر کسی پرامن حل کیلئے مطمئن کرے۔

 

جب ثالثی پیانل اپنی کوششوں سے ناکام ہوکر متنازع معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ کے دائرے میں ڈال دیا، تب پانچ رکنی دستوری بنچ تشکیل دی گئی اور طے کیا گیا کہ روزانہ کی اساس پر کیس کی سماعت کے ذریعے جلد از جلد فیصلہ سنایا جائے گا۔ چنانچہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میںروزانہ سماعت 6 اگست 2019 کو شروع ہوئی۔ وسط اکٹوبر میں 40 روزہ سماعت کی تکمیل پر جسٹس گوگوئی نے کہا کہ ”بہت بحث اور دلائل ہوچکے“۔ اب اندرون ایک ماہ عدالت اپنے فیصلہ کا اعلان کرے گی ۔ 17 نومبر کو جسٹس گوگوئی کی سبکدوشی بھی تھی۔

 

پھر 9 نومبر کو جسٹس گوگوئی کی زیرقیادت پانچ ججوں ( چار ہندو اور ایک مسلم جج ) پر مشتمل دستوری بنچ نے اپنا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے منہدمہ بابری مسجد کی 2.77 ایکڑ اراضی دو ہندو فریقوں کو دے دی کہ وہاں مندر بنالیں، اور متعلقہ مجموعی 67 ایکڑ اراضی کے اندرون مناسب مقام پر پانچ ایکڑ اراضی مسلم فریق (سنٹرل سنی وقف بورڈ، یوپی) کو الاٹ کرنے کا مرکزی و ریاستی حکومتوں کو حکم دیا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے عدالتی فیصلہ قبول نہیں کیا اور سپریم کورٹ کے طریقہ کار کے مطابق فیصلہ سے اندرون ایک ماہ نظرثانی کی عرضیاں داخل کی جاچکی ہیں۔ ایودھیا کیس کے فیصلہ کے تعلق سے وزیراعظم مودی کے دعویٰ پر توجہ دیں تو دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشنس پر کچھ منصفانہ اقدام کی امید رکھنا فضول ہے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: