صدر کانگریس سونیا گاندھی نے جمعرات کو پارٹی کے اعلیٰ قائدین کی میٹنگ میں آخرکار وہ بات کہی جس کی طرف ونود دوا جیسے سکیولر اور سینئر جرنلسٹ برسوں سے توجہ دلاتے رہے ہیں۔ کانگریس کی قدآور لیڈر نے تمام پارٹی والوں کو تاکید کی کہ موجودہ مودی حکومت جو جمہوریت کی دھجیاں اڑا رہی ہے، اس کے خلاف جدوجہد کا درست طریقہ بنیادی سطح پر عوام سے ربط قائم کرنا اور اپنی اصولی لڑائی کو سڑکوں تک لے آنا ہے۔ میں صحافت کی شد بد سے ضرور واقف ہوں، میری بھی یہی رائے رہی ہے۔ 


سونیا گاندھی نے کہا کہ کانگریسیوں کا خود کو سوشل میڈیا تک محدود کرلینا ذمہ دار اپوزیشن کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ دلچسپ بات ہے کہ حالیہ لوک سبھا الیکشن کے بعد کانگریس کی صدارت چھوڑنے والے راہول گاندھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹوئٹر‘ کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور ان کی ہمشیرہ (نئی پارٹی جنرل سکریٹری) پرینکا وڈرا نے بھی سوشل میڈیا سے استفادہ شروع کیا ہے۔ ویسے وہ مشرقی اترپردیش کی اپنی ذمہ داری نبھانے میں سیاسی گراونڈ تک بہ نفس نفیس رسائی بھی حاصل کررہی ہیں۔


ونود دوا گزشتہ کئی برسوں سے زور دیتے آئے ہیں کہ کانگریس قائدین بوڑھے ہوچکے ہیں، اس طرح کہ اب کوئی بھی سینئر لیڈر حقیقی میدانِ سیاست پر آکر نہ عوام سے ربط قائم کرنا چاہتا ہے، اور نہ نااہل حکومتوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج سے دلچسپی رکھتا ہے۔ لگ بھگ تمام جنرل سکریٹریز اور کانگریس ورکنگ کمیٹی ممبرز کا یہی حال ہے۔ ایسے حالات میں عوام کو وزیراعظم مودی اور امیت شاہ کے فریبی جال سے کون اور کیسے نکالے گا؟ فریبی جال اس لئے کہا، کیوں کہ وزیراعظم نے ادعا کیا ہے کہ دوسری میعاد کے ابتدائی 100 دنوں میں ان کی حکومت نے کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں بلکہ انھوں نے فلمی انداز اختیار کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ ابھی تو صرف ٹریلر ہوا ہے، پوری فلم ابھی باقی ہے۔


کیا وزیراعظم مودی کی نظر میں جموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی نہایت غیرجمہوری انداز میں تنسیخ کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) زیرقیادت حکومت کا کارنامہ ہے؟ کیا وہ مسلم پرسنل لا میں بیجا مداخلت کے ذریعے دستورِ ہند میں دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی میں تین طلاق قانون راجیہ سبھا ارکان کی ڈرامہ بازی کی مدد سے منظور کروانے کو سب سے بڑی اقلیت کو نفسیاتی ضرب پہنچانے کو حکومت کی کامیابی سمجھتے ہیں۔ سکیولر ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے مودی مزے لے کر ”اوم“ اور ”گائے“ کے ذریعے مذہبی کارڈ کھیل رہے ہیں، کیا یہی ان کی حکومت کی روش رہے گی؟ معیشت بدحال ہورہی ہے، مجموعی دیسی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح تھوڑی مدت میں تقریباً 2 فیصد گھٹ کر 5 فیصد تک گرچکی ہے، بیروزگاروں کا برا حال ہے، آٹوموبائل انڈسٹری کراہتے ہوئے بیروزگاری میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہے، کیا یہی ”نیا انڈیا“ ہے۔ 


اصل دھارے کا تقریباً 90 فیصد میڈیا ”حکومت کی گود“ میں بیٹھ چکا ہے، ورنہ یہ سارے مسائل ضرور موضوع بحث بنائے جاتے۔ اس لئے محدود میڈیا اور کسی حد تک سوشل میڈیا کے ذریعے کانگریس زیرقیادت اپوزیشن کو اپنی توانائیاں مجتمع کرنی ہوں گی۔ جنرل الیکشن میں بی جے پی قائدین کی بعض کارگر چالوں، کچھ عوام میں دور اندیشی کے فقدان اور بعض دیگر مسائل نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی طاقت کافی محدود کردی ہے۔ ان حالات میں سب سے پہلے سونیا گاندھی کو ملک بھر کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی سعی کرنا چاہئے، خاص طور پر مغربی بنگال میں برسراقتدار ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس پارٹی کو موجودہ طور پر دیگر اپوزیشن کی تائید و حمایت درکار ہے۔ وہ مغربی بنگال میں بی جے پی کی جارحانہ پیش قدمی کو روکنے میں اکیلی پڑرہی ہیں۔ جب سارا اپوزیشن یک جٹ ہوجائے تب سڑکوں پر جدوجہد کے ذریعے موجودہ مرکزی حکومت کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: