دہلی کے رام لیلا میدان پر اتوار کو منعقدہ ریلی سے نریندر مودی نے خطاب میں دعویٰ کیا کہ 2014 میں برسراقتدار آنے کے بعد بی جے پی نے کبھی این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) کی بات ہی نہیں کی لیکن سی اے اے (ترمیم شدہ قانون شہریت) کی آڑ میں اپوزیشن پارٹیاں عوام کو گمراہ کرتے ہوئے بھڑکا رہی ہیں۔ مودی کے اس دعوے پر انتخابی تجزیہ کار، سماجی جہدکار اور سیاسی پارٹی ’سوراج ابھیان‘ کے بانی یوگیندر یادو نے ردعمل میں کہا کہ انھوں نے زندگی میں کئی وزرائے اعظم دیکھے، ہر کسی میں خوبیوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ خامی پائی، لیکن مودی جیسا ’جھوٹا وزیراعظم‘ ہندوستان میں کبھی نہیں رہا۔ میں، یوگیندر یادو کے ریمارکس سے سو فیصدی متفق ہوں۔

 

میرا ماننا ہے کہ ابتداءسے ہی مودی حکومت نے دو مقاصد کے ساتھ شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) پارلیمنٹ میں متعارف کرایا۔ پہلا مقصد فوری فائدہ اٹھانے سے متعلق ہے اور دوسرا، طویل مدتی نوعیت کا ہے۔ پہلا مقصد سارے ہندوستان کی توجہ مرکزی حکومت کی ناکامیوں اور لگ بھگ تمام محاذوں پر موجودہ ناقص حالات سے ہٹانا تھا، جس میں وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی قیادت میں سی اے بی کے پس پردہ کارفرما تمام ذہن کامیاب ہوئے۔ پس پردہ کارفرما ذہنوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نمایاں ہے، جس کی رائے کے بغیر بی جے پی حکومت سی اے اے جیسا بڑا اقدام کرے گی، ایسا سمجھنا بے وقوفی ہے۔ 

 

آج آپ ہندوستان کے طول و عرض پر یک نظر ڈالیں۔ ہر طرف سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت اور کہیں کہیں تائید میں احتجاج و مظاہرے ہورہے ہیں۔ یعنی بدحال معیشت، بے روزگاری کی بڑھتی شرح، مہنگائی میں لگاتار اضافہ، خواتین و لڑکیوں کے خلاف مسلسل بڑھتے جنسی جرائم، بیشتر کسانوں کی قابل رحم حالت، بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں لا اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال، انکاونٹرس میں اضافہ کے بارے میں اب کون بات کررہا ہے؟ اصل دھارے کا سارا میڈیا احتجاج و مظاہرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ یوں مرکزی حکومت اپنی ناکامیوں سے قوم کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہوئی۔

 

 تاہم، مودی، امیت شاہ، آر ایس ایس سے شہریت ترمیمی قانون کے بعد کی صورتحال کے بارے میں ٹھیک ٹھیک اندازہ قائم کرنے میں ”بڑی غلطی“ ہوگئی۔ انھوں نے سمجھا تھا ہوگا کہ تین طلاق پر پابندی، آرٹیکل 370 کی تنسیخ، بابری مسجد اراضی ملکیت کیس میں سپریم کورٹ فیصلہ کی طرح سی اے اے اور این آر سی پر ہندوستان کے مسلمان کچھ خاص مزاحمت نہیں کریں گے، لیکن دیگر طبقات و مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی جب سی اے اے اور مجوزہ ملک گیر این آر سی کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر آئے تو ملکی صورتحال پر مودی ۔ شاہ جوڑی کی گرفت کمزور پڑگئی۔ 

 

اس دوران جھارکھنڈ اسمبلی کیلئے انتخابات میں بی جے پی حکومت کو شکست ہوئی۔ جے ایم ایم۔ کانگریس اتحاد کی اقتدار پر واپسی کو بیشتر لوگ سی اے اے این آر سی جیسے اقدام کا اثر سمجھ رہے ہیں۔ میں ایسا نہیں مانتا، کیونکہ قبائلی آبادی کی کثرت والی اس ریاست کی صرف 19 سالہ تاریخ میں ریاستی اقتدار ہمیشہ تغیر پذیر رہا، حتیٰ کہ تین مرتبہ صدر راج بھی نافذ کیا جاچکا ہے۔ اس مرتبہ خود چیف منسٹر رگھوبر داس اپنی اسمبلی نشست نہیں بچا پائے اور انھوں نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ یہ نتائج ان کی چیف منسٹری کی شکست ہیں، بی جے پی کی نہیں۔ یہ تبصرہ درست ہے، کیونکہ رگھوبر داس کا ریمارک ان کے دورِ اقتدار کی غلطیوں کا بالواسطہ اعتراف ہے۔ اس پس منظر میں اپوزیشن جے ایم ایم۔ کانگریس۔ آر جے ڈی اتحاد کی کامیابی حیران کن نتیجہ نہیں۔ 

 

ہر چھوٹی ، بڑی ریاست کے الیکشن میں مودی و امیت شاہ وزیراعظم و مرکزی وزیر داخلہ جیسے اہم دستوری عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود یکایک صرف بی جے پی قائدین کا روپ اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ عہدوں پر قوم کے نمائندہ ہیں، بی جے پی کے نہیں۔ چنانچہ مودی اپنے سینہ پر بی جے پی کا انتخابی نشان ’کنول‘ لگوا لیتے ہیں اور امیت شاہ وزارت داخلہ کے امور کا اپنا قیمتی وقت ریاستی انتخابات کیلئے وقف کردیتے ہیں۔ مزید یہ کہ مودی و امیت شاہ ریاستی چناو میں قومی و بیرون ملک کے مسائل پر زیادہ بات کرتے ہیں، جس سے اب ہندوستان کا ووٹر بیزار ہوتا جارہا ہے۔ 

 

بھلا بتائیے، جھارکھنڈ کے ووٹر کو کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی تنسیخ سے کیا لینا دینا ہے؟ کیا مندر مسجد کی تعمیر، فرقہ وارانہ منافرت، گائے بیف کے بہانے لنچنگ، لوو جہاد، گھر واپسی سے کسی فرد کا پیٹ بھر سکتا ہے؟ آپ جابس دینے سے قاصر ہو، اپنے مفاد کی خاطر غیردانشمندانہ اقدامات سے معیشت کا برا حال کرچکے ہو، کارخانے و فیکٹریاں و کمپنیاں بند ہونے کا سبب بنے ہو .... ایسے حالات میں ووٹروں کو کب تک بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک ہندو۔ مسلم یعنی مذہب کی بات ہے، کسی کا کسی پر جبر نہیں ہونا چاہئے۔ یہی فطری تقاضہ ہے۔ صرف ہندوستان کیا، دنیا میں ہر کسی کو اس کا مذہب و عقیدہ مبارک، تاوقتیکہ وہ دیگر افراد کی آزادانہ زندگی میں مداخلت نہ کرے۔ اوپر والے نے قرآن میں ”لکم دینکم ولی دین“ (سورہ نمبر 109 الکافرون۔ آیت 6) کے ذریعے یہی پیام دیا ہے۔

 

رہا سوال کہ جھارکھنڈ الیکشن میں ای وی ایمس نے بی جے پی کیلئے کام کیوں نہیں کیا، جس کا 2014 سے اپوزیشن الزام عائد کرتا رہا ہے؟ میری دانست میں ای وی ایمس میں سو فیصدی دھاندلی نہ کبھی ہوئی، نہ ماڈرن ٹکنالوجی کے موجودہ دور میں کی جاسکتی ہے۔ مودی۔ شاہ جوڑی کا غرور و تکبر 2019 کا جنرل الیکشن جیتنے کے بعد کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا، وہ حد سے زائد خوداعتمادی میں مبتلا ہوگئے۔ شاید ان کو بڑی خوش فہمی ہوگئی تھی کہ جھارکھنڈ کے محض 81 اسمبلی حلقوں کیلئے ”پانچ“ مراحل میں انتخابات کراتے ہوئے وہ اپنی سہولت سے ریلیاں کریں گے جن میں ریاست سے غیرمتعلق باتیں بھی کریں تو بی جے پی کو ووٹ مل جائیں گے۔ مگر رگھوبر داس کے اعترافِ شکست نے عملاً پول کھول دی کہ ریاستی بی جے پی حکمرانی میں خامیاں رہیں، اس لئے ووٹروں نے ان کی حکومت مسترد کردی۔

 

اس طرح سی اے اے کا پہلا مقصد مودی حکومت کو حاصل ضرور ہوا، لیکن اس کے نہایت غیرمتوقع نتائج نے حکمرانی کے نئے مسائل پیدا کردیئے اور دوسرے مقصد کو ناممکن بنا دیا۔ آر ایس ایس کا خواب ہے کہ 2025 تک نہ صرف ہندوراشٹرا قائم ہوجائے بلکہ دوبارہ اکھنڈ بھارت کی تشکیل کی طرف قابل لحاظ پیش رفت بھی کرلی جائے۔ جاریہ احتجاجوں و مظاہروں میں غیرمسلم کمیونٹی کی بھی شرکت نے آشکار کردیا کہ ہندو راشٹرا کا قیام قابل لحاظ ہندو آبادی کی پسند ہوسکتی ہے، سب کی نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندو راشٹرا کیلئے کوشش پر تقسیم ہند جیسے حالات پیدا ہوں گے جو ’اکھنڈ بھارت‘ (موجودہ ہندوستان کے ساتھ پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان) کی دوبارہ تشکیل کے بجائے ’منتشر ہندوستان‘ کا موجب بنیں گے۔

 

مودی و امیت شاہ کی متعصبانہ سیاست اور گجراتی لابی سے خود بی جے پی زیراقتدار جنوبی ریاست کرناٹک کی یدی یورپا حکومت جی ایس ٹی وصولیات کی تقسیم اور دیگر مرکزی فنڈز کی منتقلی کے معاملے میں ناراض ہے۔ بی جے پی کی سوچ و فکر اور اس کے تکبرانہ رویہ کے سبب پرانی حلیف شیوسینا نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اس طرح مہاراشٹرا بھی بی جے پی کی گرفت سے چلا گیا۔ تلنگانہ میں موجودہ طور پر ’سیاسی مکار‘ قیادت کی حکمرانی ہے، جس پر مودی۔ امیت شاہ کی بی جے پی یا آر ایس ایس کبھی مستقل بھروسہ نہیں کرپائیں گے۔ ٹاملناڈو اور کیرالا زبان اور ثقافت نیز سیاسی فکر کے معاملے میں بی جے پی کا ضد ہیں۔ کشمیر کو پہلے ہی بیگانہ کیا جاچکا ہے۔ اس لئے دستورِ ہند کے مغائر اقدامات پر ہندوستان کی سالمیت خطرے میں پڑجائے گی۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: