شوہر اور بیوی کا رشتہ اوپر والے نے بہ یک وقت مضبوط اور نازک رکھا ہے۔ نکاح شادی اپنے آپ میں حیران کن بندھن ہے۔ دو مخالف جنس والے افراد ایک مقدس معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ ممکنہ طور پر پوری زندگی گزارنے کا عہد کرلیتے ہیں۔ پہلے سے رشتے داری نہ ہو تو ایسے اجنبی افراد کی کامیاب شادی تو واقعی قابل رشک کہی جاسکتی ہے۔ ویسے پہلے سے رشتہ داری ہو بھی تو اِزدواجی رشتہ کے جو تقاضے ہوتے ہیں، اسے پورے کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہوتا۔ اس طرح ایسے جوڑوں کی کامیاب زندگی بھی لائق ستائش ہے۔

 

میں جب ازدواجی بندھن کے زائد از دو دہے کے تجربہ کی مدد سے آج کل کے سماج کا مشاہدہ کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ بعض جوڑے چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا کر اپنی ازدواجی زندگی برباد کررہے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ فیملی کے بڑے اور بزرگ لوگ بھی اکثر و بیشتر ایسی حالات پر قابو پانے سے قاصر ہورہے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ہر مرد اور ہر عورت میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں، وہیں خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ نہ صرف خوبیوں والا مرد نوجوان آپ کو کہیں ملے گا، نا ہی صرف خوبیوں والی عورت جوان لڑکی پائی جاتی ہے۔ مطلب صاف ہے کہ دونوں جنس میں خوبی اور خامی موجود ہے۔ یہ مان لیں تو پھر کئی مسائل اور خاص طور پر انانیت خودبخود ختم ہوجاتی ہے۔

 

شوہر کو سوچنا چاہئے کہ بیوی کی پسند اور ناپسند کیا ہے؟ اسی طرح بیوی کا معاملہ ہونا چاہئے۔ اس طرح مساوات سے کام لیا جائے تو کامیاب ازدواجی زندگی نہ گزرے، ایسا ہونہیں سکتا۔ بعض مرد لوگ گھر والی کی یا فیملی کی بات سننا اپنے لئے عار سمجھتے ہیں؛ میرے خیال میں وہ غلط سمجھتے ہیں۔ بعض لڑکیاں و خواتین بھی ہٹ دھرمی کرتی ہیں اور ان کو ہمیشہ یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ شوہر کو کس طرح قابو میں رکھیں۔ یہ غیرفطری سوچ ہے۔ شوہر کو فیملی کی تمام واجبی باتیں سننا چاہئے اور بیوی اپنے تمام جائز حقوق کیلئے شوہر سے تقاضہ کرسکتی ہے۔ 

 

آج کے دور میں سوشل میڈیا اسمارٹ فونس رکھنے والے تمام افراد کی زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ واٹس ایپ، فیس بک وغیرہ اسی کے تحت آتے ہیں۔ کسی کسی فیملی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ واٹس ایپ وغیرہ میں ’ڈسپلے پکچر‘ (ڈی پی) کے سلیکشن پر بھی اختلاف رائے پیدا ہوجاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، ایسا اختلاف چاہے بیوی کی طرف سے شوہر کے ساتھ ہو، یا شوہر کی طرف سے بیوی کے ساتھ، اسے انا کا مسئلہ ہرگز نہیں بنانا چاہئے۔ فیملی میں ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی خوشی کا خیال رکھنا بھی کئی بار آپسی تال میل میں بڑی تبدیلی لاتا ہے۔

 

موجودہ دور میں سن بلوغت کو پہنچنے کے کئی سال بعد شادیاں ہونے پر بھی زوجین اپنی عملی زندگی میں سوجھ بوجھ کا ثبوت نہیں دے رہے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ ایسے معاملوں کی اکثریت ہے، مگر ان کی تعداد گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے، جو تشویشناک ہے۔ اس معاملے میں مسلم، غیرمسلم کی تخصیص نہیں ہے۔ تقریباً ہر کمیونٹی میں ایسا دیکھنے میں آرہا ہے۔ شوہر اور بیوی میں کئی کئی ہفتے یا مہینوں کی علحدگی یا طلاق یا خلع کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ سوشل کونسلنگ اور شرعی کونسلنگ کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس کے باوجود زوجین میں ناخوشگوار واقعات کم نہیں ہورہے ہیں۔ 

 

میرے خیال میں دین، اخلاقیات، تہذیب سے موجودہ نسل بلکہ ادھیڑ عمر والوں کی بھی دوری ان مسائل کی جڑ ہے۔ اگر کم از کم پڑھے لکھے لوگ ٹھان لیں کہ وہ ازدواجی زندگی میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو مسئلہ نہیں بنائیں گے تو آدھے ناخوشگوار واقعات ختم ہوجائیں گے۔ زوجین کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ نہ تنہا مرد مکمل ہے، نہ تنہا عورت کو مکمل کہا جاسکتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ جس لمحہ یہ بات سمجھ میں آجائے، شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے پر بھروسہ عروج پر پہنچ جائے گا۔ ان شاءاللہ۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: