مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پیر کو ایک نیا پٹارہ کھولتے ہوئے زور دیا کہ واحد ملٹی پرپز شناختی کارڈ ہونا چاہئے جو علحدہ دستاویزات جیسے آدھار نمبر، الکٹورل فوٹو آئیڈنٹیٹی کارڈ، پان اور پاسپورٹ نمبر وغیرہ کو احتیاط سے جمع رکھنے کی ضرورت کو ختم کرے گا۔ پچھلے بیس برسوں میں بھارتی شہریوں کے پاس اتنے کارڈز جمع ہوچکے ہیں کہ ان سے کسی دشواری کے بغیر معقول کام چل رہا ہے۔ سرکاری خزانہ سے ان کارڈز کے لیے حکومتیں کروڑہا روپئے خرچ کرچکی ہے۔ آدھار کارڈ کی اجرائی دس سال سے جاری ہے اور اب وہ تمام شہریوں کے احاطے کے قریب پہنچ رہی ہے۔ اس پس منظر میں خواہ مخواہ ایک اور کارڈ متعارف کرانا پہلے سے کمزور معیشت پر مزید بوجھ ڈالنا، شہریوں کو پھر ایک بار قطاروں میں ٹہراتے ہوئے ان کی توجہ اہم قومی مسائل سے ہٹانے کی کوشش کے سواءکچھ نہیں۔


وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ ہمہ مقصدی کارڈ ہوگا، یعنی شہریوں کو ایک سے زیادہ کارڈز سنبھال کر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہر کارڈ کی اپنی علحدہ افادیت و اہمیت ہوتی ہے۔ خاص طور پر پاسپورٹ منفرد قسم کی افادیت رکھتا ہے اور خاص ضرورت کی تکمیل کرتا ہے۔ وزیر داخلہ نے نئی دہلی میں آفس آف رجسٹرار جنرل آف انڈیا اینڈ سینس کمشنر کے نئے ہیڈکوارٹرز کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب میں دانستہ یا نادانستہ روانی میں کئی کارڈز کے ساتھ پاسپورٹ کو بھی شامل کردیا۔ پاسپورٹ میں کئی اوراق کی ضرورت پڑتی ہے۔ کسی ملک میں ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کی نوعیت کا پاسپورٹ نہیں ہوگا کہ ڈیجیٹل ٹکنالوجی پر کام کرے۔ البتہ امیت شاہ نے ڈیجیٹل طریقے سے حاصل کردہ ڈیٹا کے ذریعے کسی بھی فرد کو 18 سال کے ہونے پر خودبخود ووٹرز لسٹ میں شامل کرلینے اور متوفی لوگوں کے نام حذف کردینے کی بات بھی کہی ہے۔ یہ معقول تجویز ہے، اس پر عمل کرنے میں نہ کچھ زیادہ نیا خرچ ہوگا اور نہ عوام کو غیرضروری زحمت اٹھانی
پڑے گی۔


جب پاسپورٹ کو ہمہ مقصدی شناختی کارڈ میں شامل نہیں کیا جاسکتا تو پھر دیگر کارڈز کو یکجا کرنے کی فی الحال ضرورت ہی کیا ہے۔ کیا ملک کو اور کوئی کام نہیں، اور کوئی مسائل نہیں، کیا معیشت کا برا حال نہیں، کیا بے روزگاری عروج پر نہیں، کیا انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کی ضرورت نہیں، کیا صحت اور صاف صفائی کے شعبے میں بھارت اطمینان بخش صورتحال رکھتا ہے؟ جب ڈھیر سارے کام کرنے کے ہیں تو کیوں سردست فضول کام میں وقت اور پیسہ برباد کیا جائے؟


مسلسل ترقی پذیر دور میں جب کہ مودی حکومت خصوصیت سے کیاشلیس اکانومی پر زور دے رہی ہے، وقفے وقفے سے یہ کارڈ ، وہ کارڈ وجود میں آتے رہیں گے۔ حکومت اگر ہر قسم کے کارڈ کا ڈیٹا واحد ملٹی پرپز کارڈ سے جوڑتی رہے گی تو یہ طریقہ ملک بھر میں قابل عمل نہیں ہوگا۔ تقریباً 70 فیصد بھارت دیہات پر مشتمل ہے۔ قوم کی بھی اتنی سکت نہیں کہ ہر گاوں، قصبہ میں بھی وہی عصری ٹکنالوجی دستیاب کراسکے جو ملک کے میٹرو اور بڑے بڑے شہروں میں زیراستعمال ہے۔ ایسی صورت میں ہمہ مقصدی کارڈ فیل ہوجائے گا۔ اس لئے تمام سیاسی پارٹیوں اور غیرسرکاری تنظیموں کو عوام میں بیداری پیدا کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو اس قسم کے غیرضروری خرچ والے منصوبوں پر عمل آوری سے روکنا ہوگا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کا عمل آخرکار ناکام ہوگیا تو حکومت اپنی خفت مٹانے اب نیا جال لے کر آرہی ہے۔

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: