گورنر کیرالا عارف محمد خان نے اپنی سرگرم سیاست کانگریس سے شروع کی۔ اسی پارٹی کی مرکزی کابینہ میں کئی قلمدانوں کے ذمہ دار رہے۔ 1985 میں راجیو گاندھی حکومت میں مدھیہ پردیش کی خاتون شاہ بانو بیگم کے گزارہ کے معاملے میں شریعت محمدی صلعم کے مغائر متنازع عدالتی فیصلہ سامنے آیا اور مرکزی حکومت نے ابتداءمیں مداخلت سے گریز کیا، تب عارف خان اس معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے نہ صرف مرکزی کابینہ بلکہ کانگریس پارٹی سے بھی مستعفی ہوگئے اور قومی سطح پر انھیں شہرت ملی۔ 

 

بعدازاں، عارف خان 1986 سے 1991 تک جنتا دل ، 1991 سے 2004 تک بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) سے وابستہ رہے اور 2004 سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں ہیں، جس کا پھل انھیں گزشتہ سال کیرالا کی گورنری کی شکل میں ملا۔ سیاسی امور کے علاوہ عارف خان اسکالر ہیں۔ اردو، ہندی، انگریزی، سنسکرت زبانیں جانتے ہیں۔ قرآن مجید کے بارے میں کتاب کے مصنف ہیں۔ کئی دھرموں کے تعلق سے کافی جانکاری رکھتے ہیں۔ وہ جامعہ ملیہ اسکول دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، شیعہ کالج (لکھنو یونیورسٹی) کے فارغ ہیں۔ مختصر طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ، قابل شخصیت ہیں۔ تاہم، ٹی وی چیانل ”انڈیا ٹی وی“ کے پروگرام ”آپ کی عدالت“ کے حالیہ شو میں گورنر کیرالا عارف محمد خان کی باتیں، ان کے دلائل سنا تو بہت حیرانی ہوئی کہ قابل شخص بھی کس طرح ناقابل اور دہرے معیار کا حامل بن جاتا ہے۔ دہرے معیار کی حد ہونا چاہئے۔ 

 

”آپ کی عدالت“ کے ہوسٹ رجت شرما نے گورنر صاحب سے موجودہ طور پر ہندوستان میں سلگتے موضوع ’سی اے اے‘ پر سوال کے ساتھ شروعات کی۔ گورنر سے پوچھا گیا کہ ان پر کیرالا میں سی اے اے کو تھوپنے کا الزام ہے، وہ کیا کہیں گے؟ گورنر صاحب نے سب سے پہلے کہا کہ وہ احتجاج کے خلاف نہیں ہیں۔ مجھے ہنسی آئی کہ احتجاج کے خلاف وہ کیسے ہوسکتے ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ احتجاج ہر شہری کا جمہوری حق ہے اور ایسا نہیں کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے یا پاکستان جیسا مارشل لا لگایا گیا ہے۔ 

 

بعدازاں گورنر کیرالا سی اے اے کو حق بجانب ثابت کرنے کی تقریباً پندرہ منٹ کوشش کرتے رہے، کئی طرح کے دلائل بشمول قرآنی آیت پیش کئے مگر رجت شرما کے سادہ سوال کا اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے کہ سی اے اے میں 6 مذہبی برادریوں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی شامل کردیا جاتا تو مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ گورنر صاحب کہنے لگے کہ کوئی مسلمان کو ہندوستانی شہریت دینا ہو تو کوئی مسئلہ نہیں۔ عدنان سمیع اور سلمیٰ آغا کی مثالیں پیش کئے۔ مجھے عارف خان کی ذہانت پر تعجب ہوا کہ جب سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کے تحت بیرونی مسلم شہریوں کو ہندوستانی شہریت دی جاسکتی ہے تو اسی قانون کے تحت ہندو، سکھ، عیسائی، جین، پارسی، بودھ کو درخواست پر ہندوستانی شہریت کیوں نہیں دی جاسکتی؟ یعنی متنازع سی اے اے کا خیال ہی کیوں آیا، اس کی کیا ضرورت ہے؟

 

رجت شرما کے مطابق چیف منسٹر مدھیہ پردیش کمل ناتھ نے کہا ہے کہ سی اے اے میں کیا لکھا، اس سے دھوکہ نہ کھائیں، کیا کیا پوشیدہ رکھا گیا ہے، اسے کھوجا جائے۔ یہ بھی بتادوں کہ مشہور ٹی وی جرنلسٹ راج دیپ سردیسائی نے گورنر کیرالا عارف محمد خان کو ”بی جے پی کا ایجنٹ“ کہا ہے۔ یہ ریمارکس یوں ہی نہیں ہیں۔ جب کسی بیرونی فرد کو ہندوستانی شہریت دینے کیلئے پہلے سے قانون موجود ہے تو پھر سی اے اے کا کیا مصرف؟ یہ اسی لئے ہے کیونکہ یکم اپریل 2020 سے مودی حکومت نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کی تیاری کررہی ہے، جو نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کیلئے پہلا قدم ہے۔ 

 

گزشتہ سال آسام میں این آر سی کی قطعی فہرست جاری کی جاچکی اور وہاں اس معاملے میں کیا کچھ ہنگامے ہوئے ہیں ، سارا ملک واقف ہے۔ گورنر صاحب کا سی اے اے کا دفاع کرنا بہ الفاظ دیگر این آر سی کی حمایت کرنا ہے، جو صرف مسلمانوں اور تھوڑی تعداد میں دیگر برادریوں کیلئے مصیبت کا پہاڑ بن سکتا ہے۔ شاہ بانو کیس میں حکومتی موقف کے خلاف عمل کرنے والے عارف محمد خان اب 68 کی عمر میں جانے کیا کیا الٹ پلٹ دلائل کے ساتھ مودی حکومت کے اقدامات کو درست ثابت کرنے کوشاں ہے، ان کے حد درجہ دہرے معیارات کا عکاس ہے۔ افسوس۔

 

پاکستانی اقلیتوں کیلئے فکرمند مودی، شاہ پاکستان چلے جائیں

اس دوران وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ ملک بھر میں گھوم گھوم کر عام جلسے منعقد کرتے ہوئے عوام کو سی اے اے سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ بار بار یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں بالخصوص ہندووں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ 2014 سے 2019 تک یہی حکومت نے پاکستانی اقلیتوں کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا اور صرف سرحدپار سے دہشت گردی کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ یکایک پاکستانی اقلیتیں ستم زدہ ہوگئیں۔ پاکستانی ہندووں نے سی اے اے نافذ العمل ہونے کے بعد سے کئی بار یہ کہتے ہوئے مودی حکومت کی شہریت دینے کی پیشکش کو دھتکار دیا ہے کہ ہمیں ہندوستانی شہریت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ 

 

امیت شاہ کہتے پھر رہے ہیں کہ مودی جی سی اے اے کے ذریعے شہریت دے رہے ہیں، ہندوستان میں رہنے والوں میں سے کسی کی بھی شہریت چھین نہیں رہے ہیں۔ مگر وہ بھی جواب دینے سے قاصر ہیں کہ جب قانون شہریت 1955 موجود ہے تو سی اے اے کی کیا ضرورت آن پڑی اور وہ کیا مختلف انداز میں کام کرے گا؟ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی تقریریں سوالیہ جملوں سے بھری ہوتی ہیں۔ کئی سو فیٹ دور بیٹھے سامعین سے وہ چلا چلا کر پوچھتے ہیں کہ کیا ستم زدہ بیرونی ہندووں کو شہریت دینا چاہئے کہ نہیں؟ کیا ایودھیا میں رام مندر بننا چاہئے کہ نہیں؟ کیا کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ رہنا چاہئے کہ نہیں؟ ہزاروں کے مجمع سے چند سو ہاتھ اٹھ جاتے ہیں اور حمایت میں کچھ آوازیں آجاتی ہیں۔ بس ہمارے لیڈر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ان کا کام پورا ہوا اور عوام نے متنازع اقدامات کی تائید کردی۔ اگر وزیراعظم ہند اور وزیر داخلہ کو پاکستان اور وہاں کی آبادی کی اتنی ہی فکر لاحق ہوگئی ہے کہ پاکستان کا نام لئے بغیر ان کا کوئی دن نہیں گزرتا تو بہتر ہے وہ پاکستان چلے جائیں اور جس کی خبرگیری کرنا ہے کرتے رہیں۔ ہندوستان میں قابل لیڈروں کی کمی نہیں، ہمیں بہتر وزیراعظم اور اچھا وزیر داخلہ یقینا مل جائے گا۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: