ڈسمبر 2012 کی رات جنوبی دہلی میں گھناونے جرم کا ارتکاب کیا گیا جس میں 23 سالہ فزیوتھراپسٹ اسٹوڈنٹ کو اس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ چار جوان درندوں نے اپنی خالی بس میں دھوکے سے سوار کرالیا جو عملاً اغوا ہوا۔ بس میں بوائے فرینڈ کو چاروں نے مار پیٹ کر اس کی پوری مزاحمت نڈھال کرڈالی۔ پھر لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے بیان کرنے میں پس و پیش ہوتا ہے لیکن انسان نما درندوں کو انسانیت گینگ ریپ کے ارتکاب سے نہ روک سکی۔ اتنا ہی نہیں، چاروں نے مل کر لڑکی کا وہ حال کیا کہ وہ موت کے قریب پہنچ گئی۔ تب اسے اور بوائے فرینڈ کو بس سے باہر پھینک دیا گیا۔ لڑکی 13 روز تک زندگی کیلئے لڑتی رہے لیکن آخرکار موت غالب آگئی۔ ہندوستانی قانون صحافت کو ریپ کی متاثرہ کی شناخت ظاہر کرنے سے منع کرتا ہے، اس لئے یہ کیس کو ’نربھئے‘ (بے خوف یا نڈر) کا نام دیا گیا۔

 

زمین پر سب سے پہلا جرم قتل کا ہوا۔ اس کے بعد شاید عورت کے خلاف مختلف نوعیت کے مظالم ہی دھرتی پر دوسرا قدیم ترین جرم ہے۔ دونوں گھناونے جرائم ہیں۔ قانون فطرت نے ایسے جرائم میں فوری سزا دینے کا حکم دیا ہے لیکن دنیا میں ہر جگہ قانون فطرت پر عمل نہیں ہوتا۔ افسوس کہ ہندوستان میں ایسے خطوں میں شامل ہے۔ نربھئے کیس کی مثال لیجئے۔ اس قدر بھیانک واردات ہوئی، جس میں اغوا کے ساتھ نہ صرف ریپ بلکہ گینگ ریپ، پھر قتل اور ڈکیتی کے سنگین جرائم کا بہ یک وقت ارتکاب ہوا۔ ہندوستانی عدلیہ کو اس کا فیصلہ کرنے میں 7 سال لگ گئے۔ چاروں درندوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ 

 

انڈیا کا انصاف رسانی کا عجیب سسٹم ملاحظہ دیکھئے۔ سزائے موت کسی جرم کی شدید سزا ہوسکتی ہے لیکن یہ طے ہوتا ہے کہ اس کے مجرم ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہندوستان میں سزائے موت سنانے کے بعد اس پر عمل آوری کیلئے مہینوں لگ سکتے ہیں جو نربھئے کیس میں ہورہا ہے۔ مجرمین کو اپیل کے بہانے وقت ٹالتے رہنے کا موقع ملتا ہے۔ عدالت سے اپیل کی جاتی ہے، نوعیت بدل کر پھر اپیل کی جاتی ہے۔ صدرجمہوریہ سے رحم کی درخواست کی جاتی ہے۔ مکرر درخواست بھی ہوتی ہے۔ اس سارے عمل میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مظلومہ تو مظلومہ ہی ہے، اس کی فیملی کو بھی پل پل تکلیف دی جارہی ہے۔

 

جب تک سزا پر عمل نہ ہو نام نہاد دانشور نت نئے مشورے دیتے رہتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے گینگ ریپ جیسے گھناونے جرم کے مجرمین کو معاف کردو کیونکہ فلاں نے فلاں معاملے میں ایسا کیا ہے۔ ’دانشوروں‘ کو اتنا سمجھنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ کیا دونوں معاملوں میں کچھ مماثلت ہے؟ نربھئے کیس میں چار انسان نما مرد درندے مجرمین کو پھانسی دینا ہے۔ کسی نے کہا کہ نربھئے کے والدین کو سونیا گاندھی کی تقلید کرنا چاہئے جنھوں نے اپنے شوہر راجیو گاندھی کی قاتل نلینی کو عدالت سزائے موت سنانے کے بعد معاف کردیا۔ نلینی عورت ہے، دنیا بھر میں عورتوں کو پھانسی یا دیگر طریقہ سے سزائے موت شاذونادر دی جاتی ہے۔ سونیا گاندھی بلند پایہ کی سیاسی لیڈر ہے۔ انھوں نے کن مصلحتوں کی بنا نلینی کو معاف کردیا، ان کا شخصی اور استثنائی معاملہ ہے۔ کوئی اخلاقی یا دستوری قانون نہیں کہ جو سونیا گاندھی نے کیا، وہی نربھئے کے والدین بھی کریں۔

 

نربھئے کیس میں مجھے یقین ہے کہ بھاری اکثریت کے ساتھ سارا ہندوستان چاروں مجرمین کی پھانسی کا منتظر ہے۔ میں اکثریت کے ساتھ ہوں۔ میری رائے ہے کہ جزا اور سزا نہ ہو تو زندگی کا کچھ مطلب ہی نہیں۔ آپ کچھ اچھا کریں تو آپ کو جزا یا انعام ملنا چاہئے۔ اسی طرح برائی یا جرم پر سزا ملنا چاہئے۔ جب بدترین جرم پر معاف کرنے پر دباو ڈالا جائے تو میرے خیال میں جرائم کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگا۔ اس لئے نربھئے کیس کے چاروں مجرمین کو پھانسی کی نئی تاریخ یکم فبروری 2020 پر عمل یقینی ہو تو انصاف کی بہت تاخیر سے سہی مگر تکمیل ہوگی۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: