نریندر مودی نے شروع سے نعرہ تو ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس“ اور پھر ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس“ کا دیا، لیکن وزیراعظم بننے کے بعد ان کی حکومت کبھی بھی زیادہ سے زیادہ شعبوں کو فائدہ پہنچانے والا مرکزی بجٹ نہیں پیش کرپائی۔ اب ایک اور نیا مالیاتی سال آرہا ہے۔ یعنی ایک اور بجٹ آنے والا ہے جو یکم فبروری 2020 کو پیش کیا جائے گا۔ میں معاشیات کا ماہر تو نہیں ہوں لیکن دو ڈگری کورسیس کا فارغ ہونے اور لگ بھگ نصف صدی پر محیط زندگی کا تجربہ حاصل ہونے کے ناطے ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اچھے اور برے بجٹ میں تمیز ضرور کرسکتا ہوں۔

 

ہندوستان نے شاید کبھی بھی خسارہ سے عاری بجٹ پیش نہیں کیا ہے۔ چنانچہ پہلی رکاوٹ یہیں سے شروع ہوجاتی ہے کہ ملک کی وصولیات سے زیادہ قوم کے مصارف ہیں۔ اب ایسی صورتحال میں جو بھی فینانس منسٹر یا حکومت عوام کو بہتر سے بہتر نتائج فراہم کرے، وہ بلاشبہ قابل ستائش ہوں گے۔ آزاد ہندوستان کا پہلا بجٹ 31 مارچ 1948ءکو نہرو حکومت کے وزیر فینانس آر کے شنموکھم چٹی نے پیش کیا تھا۔ مجموعی وصولیات کیلئے بجٹ تخمینہ 171.15 کروڑ روپئے تھا۔ مالیاتی خسارہ محض 204.59 کروڑ روپئے تھا۔

 

بعدازاں، ہر سال بجٹ میں مالیاتی خسارہ بڑھتا ہی رہا۔ تاہم، پہلے بجٹ سے دیکھیں تو کم از کم آٹھ وزرائے اقتصادیات کی کارکردگی نمایاں نظر آتی ہے۔ جمہوریہ ہند کا پہلا بجٹ جان متھائی نے پیش کیا تھا، جس کے ذریعے پلاننگ کمیشن کی تشکیل عمل میں لائی گئی اور وزیراعظم جواہر لعل نہرو کمیشن کے پہلے چیئرمین بنے۔ 1968ءسے مرارجی رنچھوڑجی دیسائی نے 10 بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ بنایا۔ 1973ءمیں یشونت راو بی چوان کے بجٹ تخمینہ میں خسارہ بڑھتے ہوئے 550 کروڑ روپئے تک پہنچ چکا تھا۔ 1986ءمیں وی پی سنگھ نے راجیو گاندھی زیرقیادت کانگریس حکومت کا بجٹ پیش کیا اور بڑے پیمانے پر بالواسطہ ٹیکس اصلاحات متعارف کرائے جو مستقبل میں جی ایس ٹی سسٹم کا موجب بنے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ 1991 میں نرسمہا راو حکومت کی طرف سے لگاتار ایسے بجٹ پیش کئے جو آنے والی نسلوں کیلئے بہت کارگر ثابت ہوئے۔ملینیم سال 2000 کے موقع پر اے بی واجپائی حکومت کے وزیر فینانس یشونت سنہا کو ایک سے زائد بجٹ پیش کرنے کا موقع ملا۔ انھوں نے آئی ٹی انڈسٹری کیلئے اچھے اقدامات متعارف کرائے۔

 

اب مودی حکومت 2.0 اپنی نئی میعاد کا پہلا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔ اسے ماضی کے تمام اچھے بجٹ اقدامات سے سیکھنا چاہئے۔ مودی حکومت کی مشکل یہی ہے کہ وہ اپنے کوئی مخصوص ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے حکومت چلانا چاہتے ہیں لیکن معیشت کو نظرانداز کرتے ہوئے ایسا ممکن نہیں ہے۔ شرح معاشی ترقی، بے روزگاری، کالابازاری سے لے کر کالا دھن، سرمایہ کاری، سرکاری اداروں کی دگرگوں صورتحال کو مرکزی حکومت زیادہ عرصہ عوام کی توجہ سے نہیں ہٹا سکتی۔ اس لئے اسے نیک نیتی سے بجٹ پیش کرنا ہوگا۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: