میرے بچپن میں پورے ہندوستان کا تو پتہ نہیں مگر آبائی شہر حیدرآباد میں تین موسم ہوا کرتے تھے۔ چالیس سال گزر گئے، آج بھی سرما، گرما اور برسات کے تین موسم ہیں۔ تاہم، ان کے مہینوں میں فرق آگیا ہے۔ پہلے اکٹوبر، نومبر، ڈسمبر اور جنوری موسم سرما ہوا کرتا تھا۔ فبروری، مارچ، اپریل اور مئی گرما کے مہینے تھے۔ جون کے ابتدائی ہفتے عشرے میں مانسون کا آغاز ہوتا پھر جولائی، اگسٹ اور سپٹمبر تک برسات کا موسم رہتا۔ جیسے جیسے زمانہ صنعتی ترقی کرتا جارہا ہے، ویسے ویسے موسموں میں تغیر آرہا ہے۔ یہی رجحان کیلئے ’آب و ہوا میں تبدیلی‘ یا ’کلائمیٹ چینج ‘ کی اصطلاح استعمال ہورہی ہے۔

 

میرا یہ دعویٰ نہیں کہ موسموں کے وقت میں تبدیلی بس گزشتہ چالیس سال میں ہوئی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ قرآن و سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے یقین ہے کہ جب سے زمین بنی، تب سے فضا، ہوا، موسم، آب و ہوا متواتر بدلتے رہے ہیں۔ انتہائی قدیم دور اور موجودہ زمانہ میں اتنے فرق کی ضرور نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ آج انسان بہت تیزی سے ’فطرت‘ کو نقصان پہنچانے کے کام کررہا ہے، جس کی وجہ سے آب و ہوا میں بدلاو آرہا ہے، موسموں کے وقت اور مدت بدل رہے ہیں، فضا میں آلودگی بڑھ رہی ہے۔ یہ سب خود انسان کی صحت کیلئے مضر ہیں۔

 

کلائمیٹ چینج تب پیش آتا ہے جب زمین کا ماحولیاتی نظام نئے موسمی رجحانات کا سبب بنتا ہے جو کسی مقام پر توسیعی مدت تک قائم رہتے ہیں۔ یہ مدتِ وقت چند دہوں کی حد تک مختصر ہوسکتی ہے اور لاکھوں سال طویل بھی ہوسکتی ہے۔ سائنس دانوں نے زمین کی ارضیاتی تاریخ میں موسمی تبدیلی کے کئی اَدوار کی نشاندہی کی ہے، جیسا کہ حالیہ صنعتی انقلاب ہے جس میں انسانی سرگرمیوں کے سبب آب و ہوا مسلسل متاثر ہوئی اور عالمی حدت بڑھی۔ 

 

آب و ہوا کا سسٹم اپنی لگ بھگ ساری توانائی سورج سے حاصل کرتا ہے۔ یہ سسٹم ’آوٹر اسپیس‘ کیلئے بھی توانائی دیتا ہے۔ آنے اور خارج ہونے والی توانائی کا توازن اور ماحولیاتی نظام کے ذریعے گزرنے والی توانائی سے زمین کا ’انرجی بجٹ‘ معلوم ہوتا ہے۔ جب آنے والی توانائی اخراج کے مقابل زیادہ ہو تو زمین کی گنجائش توانائی مثبت ہے اور کلائمیٹ سسٹم میں گرمی پائی جاتی ہے۔ اگر زیادہ توانائی خارج ہوجائے تو انرجی بجٹ منفی ہے اور زمین پر سردی محسوس ہوتی ہے۔ کلائمیٹ چینج سطح سمندر میں تبدیلیوں، نباتات کی زندگی، بڑے پیمانے پر ناپیدگی کیلئے مختلف اثرات رکھتا ہے اور انسانی سماجوں پر بھی اثر ڈالتا ہے۔

 

سادہ الفاظ میں کہنا چاہیں تو یہی ہے کہ قدرت اور فطرت کی ترکیب کو انسان جس قدر بدلتا جائے، اسے اسی تناسب میں اثرات جھیلنے پڑیں گے، جو زیادہ تر مضر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنگلات کا کٹاو بڑھتا جارہا ہے، شہروں میں نباتات کا وجود گزرتے وقت کے ساتھ گھٹ رہا ہے، پُرفضا مقامات کی جگہ حدت پیدا کرنے والے ڈھانچوں (تعمیراتِ آر سی سی یا ری اِنفورسڈ سیمنٹ کنکریٹ) کا جال بچھایا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کا توازن بگڑنا لازمی ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کیلئے آکسیجن ناگزیر ہے اور وہ سانس لینے کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ اس کے برعکس نباتات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ چاہئے اور وہ آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ عوام میں شعور بیداری کی ضرورت ہے۔ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے آس پاس کا ماحول اچھا اور خوشگوار رکھنے کی کوشش کرے؛ ہوا، فضا اور آب و ہوا خود بخود خوشگوار ہوجائیں گے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: