شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، قومی رجسٹر آبادی (این پی آر) اور مجوزہ این آر سی(قومی رجسٹر شہریان) کے خلاف شاہین باغ دہلی کی خواتین 15 ڈسمبر سے لگاتار احتجاج کررہی ہیں۔ اب یہ ملک بھر میں احتجاج کی علامت بن چکا ہے۔ شاہین باغ سے بلالحاظ مذہب و ملت لوگ جڑ رہے ہیں۔ سکھ کمیونٹی کے بعض افراد نے وہاں لنگر کا انتظام کردیا ہے جن میں سے ایک شخص تو اپنا فلیٹ بیچ کر اپنی فیملی کے ساتھ شاہین باغ دہلی میں لنگر لگا کر احتجاجیوں کی خدمت کررہا ہے۔ دہلی میں پولیس اور لا اینڈ آرڈر کا محکمہ و ذمہ داری مرکزی حکومت کے پاس ہے۔

 

ہفتہ 8 فروری کے دہلی اسمبلی الیکشن کے اختتام پر سارے اگزٹ پولس نے چیف منسٹر اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی کی اقتدار پر برقراری کا قوی امکان ظاہر کیا ہے۔ تاہم، دہلی بی جے پی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہنوز اگزٹ پولس کو مسترد کرتے ہوئے بی جے پی کی اقتدار پر واپسی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ دعویٰ کس بنیاد پر ہے، وہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن ہمیں سوائے ای وی ایمس اور کوئی راہ نظر نہیں آتی کہ دہلی میں بی جے پی کی اقتدار پر واپسی ہو۔ بہرحال، دونوں صورتوں میں شاہین باغ احتجاج کا کیا ہوگا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔

 

میں پہلی امکانی صورت یعنی عام آدمی پارٹی کی اقتدار پر برقرار سے شروع کرتا ہوں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ مودی۔ شاہ حکومت نے شاہین باغ کو دہلی انتخابات کے پیش نظر دانستہ پنپنے دیا، ورنہ وہ زبردستی احتجاج کرا سکتے تھے۔ ایسا کرنے میں عین الیکشن سے قبل پارٹی کی شبیہہ بگڑنے کا اندیشہ تھا۔ دوسری اہم وجہ یہ رہی کہ بی جے پی کو شاہین باغ میں مسلمانوں کے سی اے اے کیخلاف احتجاج کا الیکشن میں فائدہ اٹھانا مقصود تھا۔ اس لئے انھوں نے احتجاج ختم نہیں کرایا۔ 

 

اب بی جے پی کو دہلی الیکشن میں شکست ہو یا کامیابی ، میرے خیال میں مودی۔ شاہ حکومت دونوں صورتوں میں شاہین باغ ایجی ٹیشن کو برداشت کرنے والی نہیں۔ انتخابی شکست پر تو وہ بپھرے ہوں گے اور مایوسی کے عالم میں کچھ اسی طرح کی پولیس کارروائی کرائیں گے جیسے چند سال قبل دہلی کے رام لیلا میدان میں لوک پال کے مسئلے پر احتجاج کی کوششوں کو مرکزی حکومت نے ختم کرا دیا تھا۔ بی جے پی ”غیرمتوقع طور پر ای وی ایمس سے چونکاتے ہوئے“ دہلی الیکشن جیت جائے تو بے قابو ہوجائے گی۔ اس نتیجے پر مسلمانوں اور سکیولر ووٹروں کا حوصلہ پست ہونا فطری بات ہوگی۔ ایسے حالات میں مرکزی حکومت کیلئے شاہین باغ احتجاج ختم کرانا آسان ہوجائے گا۔ بہرحال طے ہے کہ 11 فروری کو انتخابی نتائج کے بعد کسی بھی دن مودی۔ شاہ حکومت اپنا اصلی رنگ دکھا سکتی ہے؟
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: