عوام برسوں سے شکایت کرتے آرہے ہیں کہ غریب اور متوسط طبقات کیلئے اپنے بچوں کو اسکولی تعلیم دلانا ہو کہ ہائیر ایجوکیشن ، معمول کی زندگی کا مشکل ترین کام بن گیا ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ حکومتوں نے اپنے مفادات کی خاطر سرکاری اسکولس اور کالجس اور دیگر ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس کو دانستہ غیرمعیاری بنا دیا، یا پھر ان کو غریبوں اور متوسط طبقہ کی پہنچ سے دور کردیا۔ اس کا مقصد پرائیویٹ اور کارپویٹ اداروں کو تعلیم میں بزنس کے طور پر چلانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔نتیجتاً تعلیم تجارت بن گئی ہے۔

 

دو نسل قبل تک اسکولس ، کالجس اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخلے صرف میرٹ کی بنیاد پر ہوا کرتے تھے، ڈونیشن اور کرپشن کا تصور نہیں تھا۔ چنانچہ تعلیم کا معیار برقرار تھا اور اسٹوڈنٹس سماج کیلئے فائدہ مند بن کر اپنے اداروں سے فارغ ہوتے تھے۔ تاہم، وہ منحوس دور شروع ہوا جب اسکولوں اور کالجوں میں داخلوں کیلئے ڈونیشن بنام داخلہ فیس طلب کی جانے لگی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں جیسے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجس وغیرہ میں اڈمیشن ٹسٹ کے رینک پر نہیں بلکہ ڈونیشن کی ادائیگی پر داخلے دیئے جانے لگے۔ 

 

اسکولی تعلیم آج کے دور میں اقل ترین قابلیت ہے جو کسی بھی فرد کی زندگی میں ضروری ہوتی ہے۔ کوئی اگر کالج کی پڑھائی مکمل کرلے تو کچھ مناسب جاب حاصل ہونے کی توقع رہتی ہے۔ یہ دونوں سطح کی تعلیم غریبوں کیلئے مشکل بنا دی گئی ہے۔ آج کل پرائیویٹ اسکولس میں ماہانہ فیس پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک اوسطاً 500 تا 5,000 روپئے وصول کی جارہی ہے۔ غریب کی ماہانہ آمدنی 10,000 تا 20,000 روپئے ہوتی ہے اور متوسط طبقہ کے افراد ماہانہ زیادہ سے زیادہ 30,000 تا 50,000 روپئے کما لیتے ہیں۔ 

 

صرف دو بچوں کی تعلیم کی مثال لیتے ہیں۔ 10 ہزار کی آمدنی والا اگر اپنے دو بچوں کیلئے 2,000 روپئے کی اسکولی فیس ادا کرے تو ہر ماہ 20 فیصد آمدنی یوں خرچ ہوجاتی ہے۔ پھر ہر سال نت نئے عنوانات سے اسکول والے اضافی رقم وصول کرتے ہیں۔ ہر نئے سال اسکول بیاگ، ڈریس، کتابیں، کاپیوں اور دیگر اشیاءکیلئے جو خرچ آتا ہے، اس کی پابجائی بھی معمول کی تنخواہ سے ہی کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اسکولی تعلیم کے معاملے میں متوسط طبقہ کا حال ہے۔

 

پروفیشنل کالجس میں تو برسہا برس سے لوٹ کھسوٹ مچی ہے۔ انھیں کوئی روکنے والا نہیں۔ خود حکومتیں جب ایسی نقصان دہ سرگرمیوں کی سرپرستی کرنے لگیں تو اصلاح کی کیا امید رہ جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ سب سفید پوش مجرمین یعنی وائٹ کالر کریمنلس۔ عام چور، ڈکیت اپنا غلط کام گھٹیا انداز سے کرکے جیلوں تک پہنچ جاتے ہیں جبکہ پروفیشنل کالجس چلانے والے شرفا روایتی چوروں اور ڈاکووں سے کہیں بڑے ہاتھ مارتے ہیں لیکن جرم سفید پوش ہو تو ڈھنک جاتا ہے۔ اس برائی نے بے شمار مستحق و ہونہار اسٹوڈنٹس کو ملک و قوم کیلئے بہترین پروفیشنلس بننے سے روکا ہے۔ خدا جانے سفید پوش مجرمین کی گرفت کب ہوگی؟
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: