شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر احتجاج مسلسل جاری ہیں اور ملک کے بہت کم گوشے ہوں گے جہاں اس متنازع قانون پر عوام نے ناراضگی کا اظہار نہ کیا ہو۔ سب سے اہم بات اسٹوڈنٹس کا احتجاجی اور مظاہرے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب طلبہ کسی تحریک سے جڑ جاتے ہیں تو کامیابی سے ضرور ملتی ہے۔ شاید اسی لئے برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 12 ڈسمبر کو سی اے اے کی منظوری کے بعد سے ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوسی کا شکار ہورہی ہے۔

 

کرناٹک میں جہاں بی جے پی کا ریاستی اقتدار ہے، بی جے پی کے یووا کارکنان ایک گرلز کالج پہنچ گئے اور وہاں موافق سی اے اے مظاہرہ کرنے لگے۔ طالبات نے اعتراض کیا اور مخالف سی اے اے آواز اٹھائی۔ اس پر ہٹے کٹے مرد بی جے پی کارکنان کو لڑکیوں سے اُلجھتے دیکھا گیا، اور ممکن تھا کہ لڑکیوں کے ساتھ بی جے پی والے ہاتھا پائی پر بھی اُتر آتے۔ تاہم، بروقت پولیس کو طلب کیا گیا جس نے بی جے پی والوں کو وہاں سے چلے جانے کیلئے کہا اور بی جے پی ورکرس اپنا سا منہ لے کر وہاں سے لوٹ گئے۔ جہاں جہاں ریاست میں بی جے پی اقتدار ہے، وہاں اسی طرح کے واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں۔

 

تلنگانہ میں بی جے پی اقتدار تو نہیں لیکن ٹی آر ایس حکومت کی مکارانہ پالیسی اور وقفے وقفے سے بدلتے موقف نے مسلمانوں کے مخالفین کے حوصلے بلند کررکھے ہیں۔ کریم نگر کے لوک سبھا ایم پی بی سنجے کمار نے کیسا طفلانہ و جاہلانہ بیان دیا ہے ملاحظہ کیجئے۔ انھوں نے مسلمانوں اور سی اے اے کے مخالفین کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ پتھر ماریں گے تو ہم بم ماریں گے۔ ایم پی کی ایسی زبان پر ریاستی یا مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی بازپرس نہیں ہورہی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر وقفے وقفے سے سکیولرازم کا دم بھرتے ہیں لیکن ایسے کسی بھی معاملہ پر اُن کی زبان نہیں کھلتی، حالانکہ وہ اچھے مقرر ہیں۔

 

اترپردیش میں چیف منسٹر یوگی نے ”یوگی“ کی مذہبی اصطلاح کی دھجیاں اُڑا رکھی ہیں۔ پورے ملک میں مخالف سی اے اے مظاہرین پر سب سے زیادہ یو پی میں ظلم ہورہا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) جیسے رتبہ کا آفیسر میرٹھ میں مسلمانوں سے کہتا ہے کہ ’پاکستان چلے جاو‘۔ سی اے اے کی مخالفت میں احتجاجیوں نے پُرامن ریلیاں نکالیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں ہی ایسے احتجاجوں کے دوران جانے کدھر سے تشدد پھوٹ پڑتا ہے اور سرکاری و خانگی املاک کو نقصان پہنچتا ہے۔ 

 

ملک میں یو پی حکومت واحد ہوگی جس نے ایسے نقصان کی پابجائی کیلئے احتجاجیوں کو نوٹسیں بھیجی ہیں اور کئی لوگوں سے رقم کی وصولی بھی کرلی ہے۔ہریانہ میں خودساختہ سکھ گرو کی گرفتاری کے وقت اُس کے حامی طوفان مچاتے ہیں، کئی لوگوں کی جانیں گئیں اور کروڑہا روپئے کی املاک تباہ ہوئیں۔ تب بھی وہاں بی جے پی حکمرانی تھی مگر بی جے پی حکومت کو سکھوں سے نقصان کی پابجائی کرانے کا خیال نہیں آیا۔ یو پی میں معاملہ میں مسلمانوں کا ہے، اس لئے ایسا کیا جارہا ہے۔ یہ تعصب و تنگ نظری کی بدترین مثال ہے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: