مدھیہ پردیش میں کانگریس کے نامور آنجہانی لیڈر مادھو راو سندھیا کے بیٹے اے آئی سی سی جنرل سکریٹری جیوتیر آدتیہ سندھیا کی اپنی ریاست میں پارٹی زیرقیادت کمل ناتھ حکومت کے خلاف بغاوت پر مجھے زیادہ تعجب نہیں ہوا، جتنا یوتھ کانگریس کی پہچان 49 سالہ لیڈر کی چہارشنبہ کو بی جے پی میں شمولیت پر ہوا ہے۔ ایسا اس لئے کہ تقریباً اٹھارہ ماہ قبل جب راہول گاندھی زیرقیادت کانگریس نے تین ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بہ یک وقت بی جے پی اقتدار کو ختم کیا تھا، تب سے سندھیا چیف منسٹر مدھیہ پردیش نامزد کئے جانے پر بضد تھے۔ 

 

اطلاعات کے بموجب سندھیا نے اس پورے عرصے میں نازک و معمولی اکثریت کے ساتھ قائم کمل ناتھ حکومت کی اپوزیشن بی جے پی کو سخت چیلنج پیش کرنے میں شاید ہی کچھ مدد کی ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سندھیا نے دو مسئلوں کو فیصلہ کن ”بہانہ“ بناتے ہوئے کانگریس چھوڑ دی۔ اول، یہ کہ چیف منسٹر اپنے ایم پی فرزند نکل ناتھ (لوک سبھا حلقہ چندواڑہ، جس کی کمل ناتھ 9 مرتبہ نمائندگی کرچکے ہیں) کو اسٹیٹ پالیٹکس میں بڑھاوا دے رہے ہیں۔ دوم، رواں ماہ کے اواخر مقررہ راجیہ سبھا الیکشن میں سندھیا کو کانگریس سیٹ الاٹ کرنے میں تاخیر کی گئی۔

 

 میرے نزدیک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاسی فکر اور پارٹی کے انتخاب میں ملک کا ہر شہری آزاد ہے۔ کسی پر کوئی زور زبردستی نہیں۔ تاہم، میرے لئے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سندھیا نے 49 سال کی عمر تک جو سیاسی مکتب فکر اختیار کئے رکھا ، اس کے مطابق کانگریس سے وابستہ رہے، وہی پارٹی جس سے وابستہ رہتے ہوئے ان کے والد بہ عمر 56 سال 2001 میں پرلوک سدھار گئے۔ مادھو راو سندھیا کا حلقہ گونا (مدھیہ پردیش) سے ایم پی رہتے ہوئے ستمبر 2001 میں دیہانت ہوا۔ ڈسمبر میں آدتیہ نے باقاعدہ انڈین نیشنل کانگریس (یا صرف ’کانگریس‘) میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اپنے والد کے ”سکیولر، لبرل اور سوشل جسٹس والے اقدار“ کو سربلند رکھنے کا عہد کیا تھا۔ بعد میں حلقہ گونا کیلئے فبروری 2002 میں منعقدہ ضمنی انتخاب میں 31 سالہ سندھیا نے اپنے قریبی حریف دیش راج سنگھ یادو (بی جے پی) کو تقریباً 4,50,000 ووٹوں سے شکست دی تھی۔

 

اتفاق سے میں سندھیا کے ’ایج گروپ‘ کا ہوں۔ خاندانی سیاست سے میرا تعلق نہیں، لیکن زائد از 23 سالہ صحافتی پیشہ سے وابستگی کے باعث ’پالیٹکس‘ کی ”اے، بی ، سی“ ضرور جانتا ہوں۔ مجھے گزشتہ روز حیرت ہوئی کہ یہ وہی سندھیا ہے، جس نے اپنے والد کے دیہانت پر جو کچھ ”شپت“ لیا تھا اسے محض تھوڑے سے سیاسی لالچ پر ”تیاگ“ دیا۔ بی جے پی والے ضرور قبل از وقت ’دیوالی‘ منارہے ہیں کیونکہ خود انھوں نے بھی توقع نہیں تھی کی ہوگی کہ سیاسی کریئر کے اعتبار سے اتنی پختہ عمر میں ایک خاندانی لیڈر اتنی آسانی سے ”جال“ میں پھنس جائے گا۔ 

 

میری رائے کے مطابق سندھیا کو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ انھوں نے کتنا بڑا احمقانہ فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی حکومت نے مختصر عرصے میں بھارت کا جو حشر کیا ہے، اور مزید بدترین دنوں کی طرف 125 کروڑ عوام کو لے جانے والے ہیں (خدا نہ کرے)، وہ شاید ابھی سندھیا کو سمجھ نہیں آئے گا۔ اس وقت ان کی سیاسی عقل پر پردہ پڑا ہے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: