اترپردیش موجودہ طور پر انڈیا کی سب سے مضبوط اور بڑی بی جے پی حکومت والی ریاست ہے جہاں برسراقتدار پارٹی کو قانون ساز اسمبلی میں تنہا تقریباً تین چوتھائی اکثریت حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل چیف منسٹر ’یوگی‘ آدتیہ ناتھ زیرقیادت نظم و نسق کے طرزعمل کے خلاف خود بی جے پی لیجسلیٹرز نے ایوان اور احاطہ اسمبلی میں احتجاج کیا تھا۔ اندرون پارٹی ناراضگی کا معاملہ کسی طرح دبا دیا گیا لیکن یوں سمجھئے کہ وہ دبی چنگاری ہے جو کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ 

 

یو پی بی جے پی لیجسلیٹرز سے ہندوستانی مسلمان یہ سبق ضرور سیکھ سکتے ہیں کہ وہ داخلی ناراضگی کے باوجود دوسروں کیلئے منتشر نہیں اور کوئی لیجسلیٹر گروپ ایسی کوشش نہیں کررہا ہے کہ بغاوت کرتے ہوئے ’یوگی‘ حکومت کو گرا دیا جائے۔ آج کے حالات میں ہمیں کچھ اسی طرح کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ میں اس حقیقت سے ہرگز ناواقف نہیں ہوں اور نہ انکار کرسکتا ہوں کہ ہماری صفوں میں بہت مسائل پر اختلافات ہیں مگر کوئی ایک نکتہ تو مشترک ہونا چاہئے اور وہ کلمہ طیبہ سے بہتر کچھ نہیں ہوسکتا۔ 

 

میرے خیال میں آج جو بھی ہندوستانی مسلمان کلمہ گو ہے، وہ ہمارے اتحاد کیلئے کافی ہونا چاہئے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بہت واضح کردیا ہے کہ کسی بھی انسان سے کسی دیگر کا حساب نہیں لیا جائے گا۔ اس کے بعد ہم میں اختلاف کی مزید کوئی گنجائش باقی نہیں رہنا چاہئے۔ جو بھی کلمہ گو ہے، اسے ساری مسلم برادری کے مجموعی مفاد میں ساتھ لیا جائے، اس کی دیگر سرگرمیوں سے جو مخالف اسلام یا مخالف مسلم نہ ہوں، عمومی طور پر کسی کو بھی غیرضروری فکرمند نہیں ہونا چاہئے۔

 

گزشتہ دیڑھ ماہ سے یکایک متنازع شہریت (ترمیمی) قانون یا سی اے اے، فضول نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) نے ملک بھر میں ہنگامہ برپا کردیا۔ بی جے پی قیادت اور چیف منسٹر یوگی کیلئے مایوس کن حیرت کی بات ہے کہ یو پی میں پارٹی کی حکمرانی کے باوجود اس ریاست کے بھی چھوٹے بڑے شہروں حتیٰ کہ دارالحکومت لکھنو میں بڑے پیمانے پر مخالف سی اے اے، این پی آر، این آر سی احتجاج ہورہے ہیں۔ ریاست کیلئے ’بے فیض‘ یوگی کو جب سے اقتدار کی اعلیٰ کرسی سونپی گئی، تب سے یو پی کی ترقی و پیش رفت بدحال ہے۔ چنانچہ پہلے سے پریشان چیف منسٹر جاریہ احتجاجوں پر مایوسی کی بنا بپھر رہے ہیں اور اسٹیٹ پولیس کو احتجاجیوں سے نمٹنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔

 

اترپردیش سے خبریں مل رہی ہیں کہ وہاں سیاہ قوانین کے خلاف احتجاجوں پر پولیس ظلم و ستم بڑھتا جارہا ہے۔ بچوں اور بوڑھوں کو تک نہیں بخشا جارہا ہے۔ بچوں کو گرم سلاخوں کی ایذا پہنچائی جارہی ہے تاکہ ان کے ماں باپ و سرپرست ایجی ٹیشن سے باز آجائیں۔ میں نے پہلے بھی اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ فرقہ پرست اور ہندوتوا ایجنڈے کے خبط میں مبتلا بی جے پی و آر ایس ایس اترپردیش کو 2002 کا گجرات بناسکتے ہیں۔ بس گودھرا جیسے واقعہ کی کمی ہے۔ سمجھ دار انسان کیلئے ایک بار گڑھے میں گرنا کافی ہونا چاہئے، دوبارہ وہ اسی طرح کا نقصان اٹھائے تو اس سے ہمدردی کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ 

 

میری تمام مسلم سیاسی پارٹیوں، سماجی تنظیموں، مذہبی گوشوں، این جی اوز اور انفرادی ذی حیثیت شخصیتوں سے ادباً اپیل ہے کہ خدارا، اب بھی دیر نہیں ہوئی، سنبھل جائیں، ہندوستانی مسلمان متحد ہوجائیں، ایسا موقع دوبارہ نہیں آئے گا، ہمیں بے غیرت و بے حس و شرپسند حکمرانوں کا سامنا ہے۔ ہم کو کلمہ کی بنیاد پر متحد ہوجانا چاہئے اور جس کا کلمہ پر ایمان نہیں، وہ ہم میں سے نہیں۔ اس لئے اب یہ نہ دیکھیں کہ کون سنی ہے، کون حنفی ہے، کون شافعی ہے، کون حنبلی ہے، کون مالکی ہے، کون شیعہ ہے، کون مجلسی ہے، کون غیرمجلسی ہے، کون سا صحافتی گوشہ ہے، بزنس کی کون شخصیت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ 

 

جو بھی فرد یا تنظیم یا پارٹی کلمہ گو ہے، وہ ہم میں سے ہے اور ہم کو اجتماعی مفاد کی خاطر متحد ہو کر اترپردیش کی خبر لینے کی ضرورت ہے۔ بقیہ ہندوستان کے مسلمان اور غیرمتعصب ہندو ہم وطن متحد ہوجائیں تو مرکزی حکومت اور یوگی حکمرانی ہمارے سامنے ٹک نہیں پائیں گے۔ وہاں تمام گوشوں کا بھاری وفد جائے اور مسلمانوں کی خبرگیری کرے، ان کو حوصلہ دے، ان کے زخموں پر مرہم لگائیں، اور ان کو ایسے نازک حالات میں بے یار و مددگار نہ چھوڑیں، جیسے ہم نے گجرات کے مسلمانوں کو چھوڑ دیا تھا۔ بے شک، فرقہ پرستی کا طوفان گزر جانے کے بعد اس وقت کے چیف منسٹر مودی زیرقیادت گجرات میں کئی گوشوں کی طرف سے امدادی و فلاحی اقدامات کئے گئے، لیکن اصل ضرورت ’شیطان‘ کی بربریت کو چیلنج کرنا ہوتی ہے۔ انسان کا ایمان پکا ہو تو کوئی شیطان اس کے سامنے ٹک نہیں سکتا ہے۔

 

ہاں، 2002 کے گودھرا واقعہ میں 9 ستمبر 2001 کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے واقعہ کی ’تحریک‘ نظر آتی ہے اور معاملہ ریاست گجرات تک محدود رہا۔ تاہم، سی اے اے و این پی آر و این آر سی گجرات فسادات، 9/11 واقعہ اور کسی بھی دہشت گرد حملے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ 20,00,00,000 سے زیادہ ہندوستانی مسلمانوں بلکہ کسی بھی برادری کے ارکان کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ مودی حکومت نئی عالمی تاریخ رقم کرنے کا گھناونا خواب دیکھ رہی ہے۔ ان شاءاللہ ، ایسا ہوگا نہیں۔ تاہم، اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ انسان پہلے اپنی سی کوشش کرے، پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے۔ آپ غفلت کی نیند سوتے رہوگے، انتشار میں مبتلا رہوگے، وقت کی سنگینی کو اپنے اختلافات پر فوقیت نہیں دوگے، تو یاد رکھو اوپر والے نے کبھی ایسے لوگوں کی مدد کی ہے اور نہ کرے گا۔ واللہ اعلم۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: