بدلتا دور کیا کیا رنگ لاتا ہے، اگر اس پر تحقیق کرنے بیٹھیں تو شاید کبھی پوری زندگی کا احاطہ نہ کیا جاسکے۔ وقت کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلیاں آگئی ہیں۔ خود انسان میں کافی تبدیلی رونما ہوئی ہے، جو اخلاق سے متعلق ہے، شرافت سے متعلق ہے، دیانت داری سے متعلق ہے، سچ اور جھوٹ کہنے سے متعلق ہے، اور نہ جانے انسانی اوصاف ، عادات و اطوار کے کتنے پہلو ہیں، لیکن اس میں نصیحت اور مشورہ سننا اور قبول کرنا ضرور شامل کیجئے گا۔


وحدانیت کو چھوڑ کر شاید دنیا کے ہر مذہب میں الگ الگ ڈھنگ سے یکساں سبق پڑھائے گئے ہیں، یکساں نیک اعمال کی دعوت دی گئی ہے، یکساں بری باتوں سے روکا گیا ہے، اور یہ بھی آپ کو مشترک ملے گا کہ صلاح و مشورہ اور بڑوں و بزرگوں سے نصیحت کم از کم سننے کو اخلاقیات کا حصہ مانا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک انسان چاہے وہ دانشور ہو یا بزرگ صد فیصد سب کیلئے درست بات ہی کہے، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ وہی لوگوں کی زیادہ تر باتیں اپنے سے کم عمر بلکہ کئی معاملوں میں ہم عمر لوگوں کیلئے کافی معقول ہوتی ہیں، ان پر نہ صرف توجہ دی جاسکتی ہے بلکہ ان پر عمل کرنے سے نقصان کا اندیشہ نہیں فائدہ ہونے کا امکان رہتا ہے۔ 


تاہم ، اب بدلتے زمانے میں اخلاقیات کے پیمانے بھی یکسر بدل گئے ہیں۔ اب دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے خونی رشتوں میں تک کیڑے نکالنا، خامیاں ڈھونڈنا، ان کی زندگی پر فیصلے صادر کرنا، ان کی بعد والی نسل اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگی ہے۔ اس پس منظر میں صلاح و مشورہ اور نصیحت سننے کا ہی سوال پیدا نہیں ہوتا تو قبول کرنا کہاں شمار میں آتا ہے؟ اب نوجوان ہوش سنبھالتے ہی خود کو تیس مار خان سمجھنے لگے ہیں حالانکہ وہ پوری طرح فیملی پر منحصر ہوتے ہیں۔ انھوں نے شاید ’ احسان فراموشی ‘ اور ’ بے شرمی ‘ جیسے الفاظ شاید سنے ہی نہیں، اور اگر ڈکشنری دیکھی تو اس میں غائب پائے ہوں گے؟


میں نے درج بالا سطور میں آج کے زمانے میں روش پاچکے خالصتاً سماجی پہلووں کا تذکرہ کیا ہے۔ ویسے تو یہ عمومی حیثیت سے ہے، لیکن مجھے اعتراف ہے کہ غیرمسلم برادری میں یہ برائیاں نسبتاً کم ہیں، یعنی مسلم کمیونٹی زیادہ متاثر ہے۔ اسلام اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم قوم دنیا بھر کیلئے ہر اعتبار سے مثال بنتی۔ مگر افسوس، ہم زندگی کے دیگر بہت شعبوں کی طرح اخلاقیات کے معاملے میں بھی پچھڑتے جارہے ہیں۔ 


انسان کو خالق حقیقی نے کچھ ایسا بنایا کہ اس میں لچک پیدا کی ہے۔ یہی عنصر امید کو زندہ رکھتا ہے۔ اس لئے ضروری نہیں کہ آج کوئی انسان خراب ہے تو ہمیشہ خراب رہتے ہوئے اسی حالت میں دنیا سے چلا جائے گا، اس میں مثبت تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کے برعکس دنیا نے کئی لوگوں کو اچھے سے خراب ہوتے اور برا انجام پاتے بھی دیکھا ہے۔ چنانچہ میں، حالات سے مایوس نہیں ہوتا۔ جب تک زندگی ہے، جب تک انسان میں جستجو ہے، تب تک ضرور بہتری آسکتی ہے۔ امید ہے سماج میں جو بگاڑ پیدا ہوگیا ہے، وہ دیر سویر بہتری سے بدل جائے گا۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: