کہاوت ہے کہ تین ضدین مشہور ہیں: تریاہٹ، راج ہٹ، اور بال ہٹ یعنی عورت کی ضد، بادشاہ کی ضد، اور بچوں کی ضد۔ ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی 5 اکٹوبر سے جاری غیرمعینہ مدت کی ہڑتال اور چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راو کے اس پورے عرصے میں رویہ سے مجھے راج ہٹ کا خیال آیا جو پرانے دور کے بادشاہوں کی ضد ہوا کرتی تھی۔ بادشاہ کی ضد کا منطقی اعتبار سے درست ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ وہ ضد کیسے پوری کی جائے، راج دربار کو بس اسی کی فکر لاحق رہتی تھی۔ یقینا کے سی آر پرانے دور کے کوئی بادشاہ نہیںبلکہ جمہوری حکمران ہیں۔ تاہم، آج کے دور میں ’جمہوریت‘ کس چڑیا کا نام ہے، میں سمجھتا ہوں قارئین کرام کیلئے اس کی وضاحت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ اس بارے میں سب جانتے ہیں۔


اتوار کو کے سی آر کی ٹی آر ایس حکومت کی طرف سے ہائی کورٹ میں کہا گیا کہ آر ٹی سی انتظامیہ اب ملازمین اپنی ہڑتال سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوجائے تب بھی ان سے بات چیت نہیں کرسکتا۔ منیجنگ ڈائریکٹر آر ٹی سی سنیل شرما نے اپنے حلف نامہ میں کہا کہ وہ ہڑتالی قائدین سے بات نہیں کرسکتے کیونکہ پہلے سے ’بیمار حالت‘ سے دوچار آر ٹی سی کو ’غیرقانونی‘ ہڑتال کے سبب مزید 40 فی صد نقصانات ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومت 1,250 روٹس کو پرمٹ دے چکی ہے اور یہ مسئلہ عدالت میں زیردوراں ہے۔


پیر کو ہائی کورٹ کی طرف سے 48,000 ہڑتالی ملازمین کے روزگار کے مسئلہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی ٹھوس قطعی فیصلے کی امید تھی۔ تاہم، چیف جسٹس آر ایس چوہان اور جسٹس ابھیشک ریڈی کی بنچ نے کچھ ایسا فیصلہ سنایا کہ اسے پریشان حال ہڑتالی ملازمین کے حق میں کہیں یا خلاف، طے کرنا مشکل ہورہا ہے۔ عدالت نے ایک طرف کہا کہ آر ٹی سی ملازمین کی جاریہ ہڑتال کو غیرقانونی قرار دینا اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ عدالت نے لیبر کمشنر کو ہدایت دی کہ وہ اس تعلق سے اندرون دو ہفتے فیصلہ کریں۔ عدالتی فیصلے کا زیادہ نمایاں پہلو یہ ہے کہ آر ٹی سی جے اے سی قائدین کے ساتھ بات چیت کرنے ریاستی حکومت پر دباو ڈالنے کو فضول قرار دیا گیا ہے۔ بنچ نے کہا کہ فریقین کے مابین رضاکارانہ طور پر قابل قبول انداز میں بات چیت ہونی چاہئے۔ 


برسرروزگار ہونے کے باوجود حکومت کی ہٹ دھرمی کے باعث عملاً بے روزگار ہوجانے والے ہڑتالی ملازمین پر 45 روز کیسے رہے ہوں گے، اس کا ہائی کورٹ نے کوئی نوٹ نہیں لیا، بلکہ مزید دو ہفتے کی مہلت لیبر کمشنر کو دے دی کہ وہ جاریہ ہڑتال کے ’قانونی‘ یا ’غیرقانونی‘ ہونے کا فیصلہ کریں۔ ہزاروں ملازمین کا کوئی بھی ٹھوس وجہ کے بغیر ہڑتال کرنا قابل فہم نہیں ہے۔ ان کی دیڑھ ماہ سے جاری پریشانی کو عدالت نے عملاً دو ماہ تک بڑھا دیا ہے۔ 


اس پورے آر ٹی سی ہڑتال معاملے میں چیف منسٹر کا طرزعمل کچھ عجیب محسوس ہوا ہے۔ وہ تلنگانہ اور خطہ کے عام باشندوں کے نام پر اقتدار تک پہنچے۔ دیڑھ ماہ میں ہڑتالی ملازمین کے قائدین کو بات چیت کیلئے طلب تک نہ کرنا کہیں نہ کہیں ان کی ہٹ دھرمی یا راج ہٹ کو ظاہر کرتا ہے۔ ہڑتالی ملازمین ریاستی حکومت میں ضم کئے جانے سے متعلق اپنے سب سے نمایاں مطالبہ سے کئی روز قبل دستبردار ہوچکے۔ اس کے باوجود کے سی آر کے رویہ میں کچھ فرق نہ آیا۔ اس سے قبل وہ ہڑتالی ملازمین کو دو تین بار کسی شرط کے بغیر رجوع بہ کار ہوجانے کیلئے کہہ چکے تھے۔ بلاشبہ، ہڑتالیوں نے سوچا کہ دو درجن سے زائد مطالبات میں سے ایک بھی واجبی نہ ہونا ’غیرواجبی‘ بات ہے۔ چنانچہ وہ چیف منسٹر کے زور دینے پر بھی ڈیوٹی پر نہیں آئے۔ کیا کے سی آر کسی عام غیرذمہ دار شخص کی طرح انتقامانہ جذبہ کے تحت کام کررہے ہیں؟


پیر کا عدالتی فیصلہ جیسا بھی ہو، آر ٹی سی جے اے سی قائدین نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کردی ہے۔ اس کے علاوہ منگل 19 نومبر کو سڑک بند احتجاج سے دستبرداری کا اعلان بھی کیا۔ ہائی کورٹ فیصلہ کے بعد پروفیسر کودنڈا رام نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ جے اے سی قائدین اشواتما ریڈی اور راجی ریڈی نے عدالتی فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے اپنی بھوک ہڑتال ختم کردی ہے۔ تاہم، مطالبات کی یکسوئی کیلئے آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال جاری رہے گی۔ منگل کو جے اے سی اور دیگر تنظیموں کی میٹنگ میں عدالتی فیصلہ کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی طے کئے جانے اور جاریہ ہڑتال کے تعلق سے کوئی قطعی فیصلہ کے اعلان کا بھی امکان ہے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: