حیدرآباد نے آخرکار ہفتہ کو مخالف شہریت بل (سی اے اے)، مخالف این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر) اور مخالف مجوزہ این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) ’ملین مارچ‘ کے ذریعے ہندوستان کو پیام دیا کہ ہندوستان میں سب سے بڑی مسلم آبادی والا شہر مسلمانوں کے کاز میں کچھ پیچھے نہیں ہے۔ بے شک، مفادات حاصلہ کی وجہ سے حیدرآباد کے شایان شان احتجاج کرنے میں تاخیر ہوگئی، مگر جب احتجاج تو دیکھنے لائق رہا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ منافقین سے نقصان پہنچا ہے۔ اس مرتبہ احتجاج میں تاخیر کی شکل میں نقصان پہنچا۔ لیکن ان کے بھی شان و گمان میں نہیں رہا ہوگا کہ ان کی یا سیاسی سرپرستی کے بغیر حیدرآباد میں ملین مارچ کو کامیابی ملے گی۔

 

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ حیدرآباد بالخصوص پرانا شہر کے نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور نہ صرف دس بارہ کیلومیٹر کا فاصلہ کرتے ہوئے مقام احتجاج ’دھرنا چوک، اندرا پارک‘ کیلئے بشیرباغ اور ٹینک بنڈ تک پہنچے اور وہاں سے دو کیلومیٹر یا زائد پیدل چلتے ہوئے اپنے عزم و حوصلہ کا ثبوت دیا کہ دستورِ ہند کے حقوق جب خطرے میں پڑتے نظر آئیں تو وہ اپنے بل بوتے پر یعنی کوئی سیاسی سرپرستی کے بغیر بھی ارباب اقتدار کو جھنجھوڑنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ 

 

سی اے اے اور این پی آر اور مجوزہ این آر سی کی مخالفت میں بیس بائیس روز قبل جب احتجاج شروع ہوا تو سب سے پہلے احتجاجیوں پر پولیس ظلم کا بڑا واقعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے کیمپس میں طلبہ پر دہلی پولیس کی مذموم حرکتیں دیکھنے میں آئیں۔ اس کے بعد ایجی ٹیشن ملک بھر کی تمام یونیورسٹیوں اور کئی ریاستوں بشمول بی جے پی زیراقتدار اترپردیش میں شروع ہوگیا۔ اسد الدین اویسی کی مجلس ملک میں مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس ایجی ٹیشن کے معاملے میں مجلس کا عجیب روپ دیکھنے میں آیا۔ ویسے وہ خالص سیاسی معاملوں میں پہلے بھی عام مسلمانوں کی سمجھ سے بالاتر فیصلے کرچکے ہیں لیکن شہریت جیسے موضوع پر ان کا ٹال مٹول نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہے۔

 

حیدرآبادی مسلمانوں نے جب دیکھا کہ مجلس دارالحکومت تلنگانہ میں ایسا کوئی احتجاج کرنے والی نہیںجیسے ملک بھر میں ہورہا ہے، تب تحریک مسلم شبان کے محمد مشتاق ملک آگے آئے اور مختلف رکاوٹوں سے گزرتے ہوئے ملین مارچ کیلئے ہائیکورٹ سے اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 4 جنوری کو ٹینک بنڈ سے قریب نیکلس روڈپر ملین مارچ کا انعقاد طے پایا۔ پولیس نے ایک دن قبل مقام احتجاج تبدیل کرتے ہوئے دھرنا چوک، اندرا پارک پر ملین مارچ منعقد کرنے کیلئے کہا۔ حیدرآبادی مسلمانوں نے تو ٹھان رکھا تھا کہ اس مرتبہ منافقین ہوں کہ حریف عناصر ان کی کسی بھی چال پر اپنے ایجی ٹیشن کو ناکام ہونے نہیں دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ملین مارچ عظیم الشان طور پر کامیاب رہا۔

 

دھرنا چوک پر سیاسی قائدین، غیرسیاسی قائدین، مذہبی رہنما، غیرسیاسی سوچ کے حامل علماءو مشائخین ، اخبارات کے مالکین، غیرمسلم برادری کے نمائندہ قائدین غرض ہر گروپ کی نمائندگی ہوئی۔ پی ایم مودی اور ہوم منسٹر امیت شاہ نے احمقانہ اور بے وقت کا قانون شہریت لاکر منتشر مسلمانوں کو ”متحد“ کردیا ہے۔ شاید اسے یہ ”شر میں خیر“ کہتے ہیں۔ میں مسلمانوں کا اتحاد اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ملین مارچ میں خود میں نے دیکھا کہ کیا مسلک، کیا فرقہ اور کیا امیر و غریب سب نے مل کر احتجاج کرتے ہوئے ایسا سماں پیدا کیا، جو حیدرآباد کی تاریخ میں بہت ہی کم دیکھنے میں آیا ہے۔ 

 

ہفتہ کے ملین مارچ کو تو بلاشبہ ہم عمر بھر یاد رکھیں گے اور یہ واقعی تاریخی موقع رہا، جس کا حصہ جو کوئی بھی بن پایا، اس نے یادگار اور ملت کے مفاد میں احتجاج کیا ہے۔ جہاں تک حقیقی صورتحال کی بات ہے، مرکزی حکومت کی طرف سے ہنوز ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہورہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ سی اے اے کو واپس لینے، این پی آر کو موقوف کرنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ بات طے ہے کہ مودی۔ شاہ کی ہٹ دھرم جوڑی اتنی آسانی سے اپنا موقف بدلنے والی نہیں ہے۔ سارے ملک میں مسلسل احتجاج چل رہا ہے۔ حیدرآبادیوں کو احتجاج کرتے رہنا ہوگا۔ 

 

ملین مارچ کی زبردست کامیابی کو دیکھتے ہوئے اسد اویسی کو 10 مارچ کو قلب شہر سے دور عیدگاہ میرعالم ٹینک سے اپنی قیامگاہ والے علاقہ شاستری پورم تک پیدل احتجاجی مارچ اور 25 جنوری کی شب چارمینار کے دامن میں احتجاجی جلسہ عام کا اعلان کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پھر بھی وہ خود کو اصل دھارے کے احتجاج سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے سڑکوں پر آکر لگاتار دو یوم مخالف سی اے اے احتجاج کیا تو مسلم لیڈر کو خود اپنے حلقہ انتخاب حیدرآباد میں تمام حیدرآبادی مسلمانوں کو لے کر سڑکوں پر احتجاج کرنے میں کیا پریشانی اور رکاوٹ ہے؟ یہ لاکھوں مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے، صرف اسد اویسی کی سمجھ میں آیا ہے اور ان کے چند ہزار حواری ’اند بھکتوں‘ کی طرح عمل کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے خیر کیلئے دعاگو ہوں۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: