نئے قانون شہریت (سی اے اے) اور عین ممکنہ ملک گیر این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) میں خاص طور پر مسلمانوں کو ٹارگٹ بنانے اور شمال مشرقی ہند کے اندیشوں و فکرمندی کو نظرانداز کردینے کی وجہ سے مودی حکومت اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے غیردانشمندانہ تیور کے خلاف احتجاج اور تشدد بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یہ ایجی ٹیشن کہا ںجاکر رکے گا، فی الحال کہنا مشکل ہے، لیکن یہ مغرور اور لاپرواہ حکومت کو جھنجھوڑنے کیلئے ضروری ہے۔ جان پر بن آئے تو انسان کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ شہریت چھینے جانے اور درانداز کی حیثیت سے حراستی مرکز میں ڈال دینے کا اندیشہ ’جان پر بن آنے‘ سے کچھ کم نہیں۔ میرے خیال میں، اس ایجی ٹیشن کو کسی موڑ پر روک کر تمام احتجاجیوں کو ہم خیال ابنائے وطن کو ساتھ لے کر اور بھی احتجاجی طریقے ڈھونڈنے ہوں گے۔ 

 

بہرحال ملک کے موجودہ ماحول کا یہ حال ہے۔ تمام امن پسند شہریوں کے موڈ خراب ہیں۔ ابھرتی جوانی والوں اور نوجوانوں کو ایسا ماحول جمہوریت، حکومت بلکہ زندگی سے ہی عاجز کررہا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ آج کچھ ایسی بات بھی کی جائے جو شاید ایسے مشکل حالات میں بھی جینے کا حوصلہ فراہم کرے۔ ”ہم تمھیں چاہتے ہیں ایسے۔۔۔“ یہ لازمی طور پر رومانس اور عشق و محبت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ٹین ایج یعنی تھرٹین 13 سے نائنٹین 19 سال تک کی عمر لڑکے اور لڑکیوں اور خاص طور پر اوپر والے کی خوبصورت اشرف المخلوقات کیلئے نازک ہوتی ہے۔ 

 

اس عمر میں لڑکے اور لڑکیوں دونوں میں اندرونی و ظاہری طور پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ یہ ایسی عمر ہوتی ہے جہاں ٹین ایج والوں کو دنیا کے جھمیلوں کی پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ زیادہ تر ایک دوسرے کی طرف کشش کے موڈ میں ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں جب خالق نے مذکر اور مونث کو ایک ساتھ پیدا کیا تو اس اعتبار سے یہ کسی کی بھی زندگی کا یادگار اور خوبصورت موڑ ہوتا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ لڑکوں اور لڑکیوں میں ایک دوسرے سے انسیت ہوجاتی ہے۔ اب یہ چاہت کتنی سنجیدہ اور دیرپا ہوتی ہے ، اس کا متعلقہ افراد کو ٹین ایج ختم ہوتے ہوتے یا اس کے چند سال میں اچھی طرح پتہ چل جاتا ہے۔

 

اس کے بعد پرجوش جوانی کا مرحلہ 15 تا 20 سال کا ہوتا ہے جس میں مرد اور عورتیں اپنی زندگی کے مقاصد طے کرتے ہیں اور اس سمت محنت میں جٹ جاتے ہیں۔ یہی عمر ہے جب مردوں اور عورتوں کی آگے کی زندگی اور مقصد کا شاید پوری طرح تعین ہوجاتا ہے۔ اور اسی کے مطابق وہ آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ اس عمر میں دونوں جنس پر فیملی کی ذمہ داریاں بھی آن پڑتی ہیں اور پھر ان کے شب و روز میں نمایاں تبدیلی واقعی ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی فرد کی زندگی کا ٹین ایج کے بعد دوسرا اہم موڑ ہوتا ہے۔ ٹین ایج میں غلطی ہوجائے تو پچھتاوا اور نقصان زیادہ ہوتا ہے اور دوسرے مرحلے میں غلطی کے بھی مرد اور عورت آسانی سے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

 

پھر عمر کی 50 یا کچھ کم یا کچھ زیادہ بہاروں تک پہنچتے پہنچتے مرد اور عورت ذہنی پختگی کو پہنچ جاتے ہیں (بعض مردوں اور عورتوں کو چھوڑ کر)۔ اب لوگ فیملی، ٹین ایچ والوں سے لے کر نوجوانوں تک، اور اپنے ربط میں آنے والے جونیئرس کو اپنی زندگی کے تجربے سے مستفید کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر چاہے وہ سبق لیں یا اپنی مرضی کے مطابق کام کریں۔ میں ذاتی زندگی کی حد تک اپنی عمر سے زیادہ رائے زنی سے گریز کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ اس کے بعد معاشرتی زندگی کے اعتبار سے حقیقی معنوں میں کیا ہوتا ہے، وہی لوگ بتائیں تو بہتر رہے گا۔ البتہ مجھ سے تقریباً 20 سال یا اور بھی زیادہ عمر والے لوگ جیسے اسکالرس، پیشہ ور ماہرین، سیاسی لیڈر، آجرین، تاجرین وغیرہ کیا کیا کر رہے ہیں، ان کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں، اس بارے میں ضرور بول سکتا ہوں، کیونکہ اس معاملے میں مجھے قرآن، علم و دانش، آئین یعنی دستور ہند کی مدد حاصل ہے، ماضی کے حوالے موجود ہیں۔ بے لوث اور مشکوک اقدامات میں فرق کرنے کیلئے آپ کو 60، 70، 80 سال کا ہونا ضروری نہیں۔ مگر فیملی لائف اور متعلقہ امور کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔

 

یہ تو ہوا ، لڑکے و لڑکی اور مرد و عورت کے ٹین ایج سے لے کر پانچ دہوں تک کی مختصر روداد۔ میں سمجھتا ہوں، ہر فرد کے پاس زندگی کا کوئی تعمیری یا پازیٹیو مقصد ہونا چاہئے۔ ہمارا خالق بھی یہی چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا میں معقول زندگی گزارو، مگر حدود میں رہ کر۔ چنانچہ اگر ٹین ایج اور جوانی میں کوئی یہ احساس نہ کرسکے کہ ”ہم تمھیں چاہتے ہیں ایسے۔۔۔“ اور ”وہ جوانی ، جوانی نہیں۔۔۔ جس کی کوئی کہانی نہ ہو“ تو ایسے فرد کا بوریت اور مایوسی بھری زندگی کا شکار ہونا لگ بھگ یقینی ہے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: