حیدرآباد کے قریب 26 سالہ ویٹرنری ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت ریزی اور پھر اسے قتل کرکے زندہ جلا دینے کے دل دہلانے والے گھناونے جرم نے سننے والوں کے رونگٹے کھڑے کئے ہیں۔ یہ نارمل انسانوں کا کام نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ وحشی، درندہ صفت انسان نما شیطانوں کی حرکت ہی ہوسکتی ہے۔ ہندوستان میں کئی برسوں سے لڑکیوں اور خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ حیدرآباد ، اطراف و اکناف میں کچھ بہتر صورتحال تھی، لیکن حالیہ عرصے میں تلنگانہ اور دارالحکومت حیدرآباد میں بھی جرائم اور خاص کر فیمیل کمیونٹی کے خلاف حد درجہ شرمناک واقعات بڑھ گئے ہیں۔ ایسے جرائم پر افسوس، مذمت کا وقت چلا گیا، اب ان جرائم کے مرتکبین کے خلاف سخت ایکشن ہی ہونا چاہئے۔ تازہ ویٹرنری ڈاکٹر کیس میں تو چاروں انسان نما حیوانوں کو جلد از جلد سزائے موت دینا ہی عبرتناک اقدام ہوگا۔

 

اس موقع پر مجھے ایک سبق آموز واقعہ یاد آرہا ہے جو فیمیل کمیونٹی تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ چند دہے قبل کی بات ہے، ایک معروف ہندوستانی عالم دین امریکا کے سفر پر تھے۔ امریکی طیارہ میں دورانِ پرواز ایک غیرمسلم امریکی ایئر ہوسٹس نے مولانا کو پہچان کر ان سے ایک دینی سوال پوچھنے کی اجازت چاہی۔ مولانا نے حامی بھری۔ ایئرہوسٹس نے دریافت کیا کہ اسلام میں شریعت نے لڑکیوں اور خواتین کو باحجاب، باپردہ رہنے پر کیوں زور دیا ہے، مرد لوگ تو کھلے گھوم سکتے ہیں، پھر عورتوں پر زیادتی نہیں ہوگی؟ 

 

مولانا نے جواب میں امریکی ایئرہوسٹس کو امریکا کی ہی ایک واقعہ اور اس پر امریکی عدالت کا فیصلہ سنایا۔ مولانا کے جواب کے اختتام پر امریکی ایئرہوسٹس نے اسلام قبول کرلیا۔ مولانا نے ایئرہوسٹس کو جواب میں بتایا تھا کہ ایک مرتبہ کسی امریکی شخص نے کافی نقدی اور قیمتی اشیاءسے بھرا ہوا بریف کیس شاہراہ پر رکھ دیا، اور کافی فاصلے پر بیٹھ کر دوربین کی مدد سے فلمبندی کرنے لگا۔ شاہراہ پر پڑے بریف کیس کے پاس سے چند گاڑیاں یونہی گزر گئیں، لیکن ایک مسافر نے اپنی گاڑی روکی، کھلا بریف کیس پایا، اِدھر ادھر دیکھا اور چپکے سے بریف کیس بند کرکے اپنی گاڑی میں رکھ کر چلتا بنا۔ بریف کیس رکھنے والے شخص نے اپنی ویڈیو کے ذریعے بریف کیس اٹھا لینے والے مسافر کو گرفتار کروایا۔ معاملہ عدالت تک پہنچا۔ 

 

امریکی عدالت نے ہر پہلو سے کیس کا جائزہ لینے کے بعد جو فیصلہ سنایا، وہ بہت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ عدالت نے کہا کہ بریف کیس شاہراہ سے اٹھانے والے خاطی کو حسب قانون سزا دی جائے۔ مگر بریف کیس کو اس شاہراہ پر کھلا چھوڑ کر اس کے بعد معاملے کی فلمبندی کرنے والے شخص کے دماغی توازن کی جانچ کروائی جائے اور صحتمند پائے جانے پر اسے عوام کی توجہ منتشر کرکے انھیں جرم و گناہ پر اکسانے کی پاداش میں سزا دی جائے۔ 

 

لڑکیوں اور خواتین یا مجموعی طور پر فیمیل کمیونٹی کا معاملہ بھی امریکی واقعہ کی مانند ہے۔ بریف کیس چوری کرنے والا شخص جس قدر خاطی یا مجرم ہے، اتنا ہی قصور بریف کیس والے شخص کے احمقانہ پن کا ہے۔ نقدی اور قیمتی اشیاءیونہی کھلا راستے پر رکھنے یا کھلے طور پر ہاتھوں میں رکھنے کی چیزیں نہیں ہیں۔ میرے خیال میں فیمیل کمیونٹی کا تو امریکی واقعہ کے بریف کیس کی قدر سے کوئی تقابل ہی نہیں، فیمیل کمیونٹی تو خدا کی خوبصورت تخلیق، سماج اور مرد لوگوں کیلئے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اسے ہم بازاروں میں کھلا نہیں چھوڑ سکتے، جہاں کون سا مرد شریف النفس اور کون شیطان صفت ہے، یہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے۔ ویسے تو کسی بھی انسان کی سیرت اس کی صورت دیکھ کر تو نہیں بتائی جاسکتی۔ اس لئے خاص طور پر فیمیل کمیونٹی کو تمام دستیاب وسائل کے ساتھ احتیاطی اقدامات کرنا ضروری ہے۔ وہ اپنے گھر سے باہر نکلتے وقت اپنے لباس پر بھی ضرور توجہ دیں، اور بازار میں گھومتے وقت اپنے رکھ رکھاو، اپنے حرکات و سکنات میں بھی محتاط رہیں۔ اوپر والے سے دعا ہے کہ وہ خصوصیت سے فیمیل کمیونٹی کی ہر شر سے حفاظت فرمائے۔ آمین۔

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: