آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد ان کے وجود سے اللہ تعالیٰ نے حوا علیہ السلام کی تخلیق کی اور اولین مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کیلئے سکون قرار دیا۔ پھر دونوں کے ازدواجی رشتہ سے انسانوں کی پیدائش ہوتی رہی اور تب سے نہ جانے کتنے کروڑہا سال گزر گئے کہ آج دنیا کی ٹھیک ٹھیک آبادی کا شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کی تخلیق سے لے کر آج تک بڑھنے والی آبادی میں یہی نکتہ نمایاں ہے کہ خالق کائنات نے مذکر اور مونث یا یوں کہئے کہ مرد اور عورت میں ایک دوسرے کیلئے کشش رکھی ہے، جس کا منطقی انجام اکثر و بیشتر شادی ہوتا ہے۔

 

آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرماتے ہوئے دین اسلام کی تکمیل کردی اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قابل عمل دستورِ زندگی قرار دیا۔ قرآن کی باتوں یا احکام میں رتی برابر اضافہ ہوسکتا ہے نہ کمی، ذرا سی تبدیلی ہوسکتی ہے نہ کسی بات کو غیرضروری قرار دیا جاسکتا ہے۔ آدم علیہ السلام کے بعد ان کیلئے حوا علیہ السلام کی تخلیق واضح اشارہ ہے کہ مرد کیلئے عورت ہونا چاہئے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کسی مرد پر یا کسی عورت پر شادی کو فرض نہیں کیا۔ کوئی مرد یا کوئی عورت کسی وجہ سے بلکہ کسی بھی وجہ سے شادی نہ کرنا چاہے اور شادی نہ کرتے ہوئے اس سے جڑے گناہوں میں ملوث نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ مگر آپ دیکھئے کہ سماج و معاشرہ میں ہمیں ایسے مرد اور عورت کتنے ملتے ہیں۔ مسلمانوں میں کم ملتے ہیں اور غیرمسلموں میں کچھ زیادہ۔ اگر ایسی تعداد واقعی قابل لحاظ ہوتی اور شادی کے بغیر زندگی گزارنا مرد اور عورت کیلئے آسان ہوتا تو آدم ؑ اور حواؑ کی اولاد کی تعداد آج اس قدر نہیں بڑھی نہ ہوتی۔

 

اللہ تعالیٰ نے نکاح کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں شامل فرمایا۔ ساتھ ہی ایک سے زیادہ عورتوں کو ایک ہی وقت نکاح میں رکھنا بھی سنت قرار پایا۔ قرآن مجید میں خالق کائنات نے ارشاد فرمایا کہ تم اگر ایک سے زیادہ شادی کرنا چاہتے ہو تو دو، تین، چار بیویاں بہ یک وقت رکھ سکتے ہو۔ ساتھ ہی متنبہ کیا کہ اگر تم کو انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو تمہارے لئے ایک بیوی ہی بہتر ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بدلتے دور میں یہاں بعض مسلمان سورہ نساءکی اس آیت 3 کا اپنی مرضی کے مطابق مفہوم نکالنے لگے ہیں۔ وہ کہنے لگے ہیں کہ دیکھو، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم کو اگر انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو تمہارے لئے ایک بیوی ہی بہتر ہے۔ چنانچہ انصاف تو سوائے اللہ تعالیٰ، کوئی کرنہیں سکتا۔ لہٰذا، ایک سے زیادہ شادی کرنا اور اس کے ساتھ اچھی طرح زندگی گزارنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔

 

میری سادہ سی بات ہے کہ جب پہلی شادی کوئی فرض نہیں تو مزید شادیاں اور بہ یک ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا کونسا فرض ہے۔ آپ کسی وجہ سے اس کے متحمل نہیں تو نہ کیجئے۔ خود کا کوئی عمل نہ کرنا اور اسے الٰہی احکام کے ساتھ غلط طور پر جوڑنا بہت بڑی گرفت کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بے شمار مقرب بندوں نے بہ یک وقت ایک سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں رکھا۔ پیغمبر، نبی اور رسول کیلئے آپ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل والے بندے ہونے کی تاویل پیش کرسکتے ہو، لیکن ان کے علاوہ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہما اور پھر آج تک بے شمار نیک بندوں نے ایک سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں رکھا۔ آپ انکار نہیں کرسکتے کہ یہ سب انسان رہے ہیں۔ تو یہ سب نے انصاف کیسے کرلیا جبکہ انصاف تو اللہ تعالیٰ کا خاص وصف ہے؟ میرا جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انصاف کا معاملہ تمام کائنات اور تمام مخلوقات کی جملہ باتوں سے متعلق ہے جبکہ شادی شدہ مرد کیلئے دوسری عورت سے نکاح کے معاملے میں انصاف کی اللہ تعالیٰ والے انصاف سے کوئی برابری نہیں ہے۔

 

جہاں تک شادیوں میں انصاف کی بات ہے، لوگ صرف پہلی کے بعد اس بیوی کو نکاح رکھتے ہوئے دوسری شادی کے معاملے میں ہی انصاف کو کیوں رکاوٹ بنارہے ہیں؟ کیا ایک سے زائد شادی کے مخالف مرد لوگ پہلی شادی یعنی اپنی موجودہ بیوی سے پورا پورا انصاف کررہے ہیں؟ وہ کررہے ہیں یا نہیں، یہ ان کا ضمیر ہی جانتا ہے یا بیوی جانتی ہے یا بعض دیگر افراد جانتے ہیں۔ وہ کس طرح دعویٰ کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی موجودہ واحد بیوی سے انصاف کرپا رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ان کو اپنی واحد بیوی کو نکاح میں نہیں رکھنا چاہئے۔

 

اس پورے معاملے میں سب سے اہم اور تشویشناک بات اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور قرآنی آیت میں تضاد ڈھونڈنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ انسان بہ یک وقت ایک سے زیادہ بیویوں سے انصاف نہیں کرسکے گا تو پھر اس نے دو، تین ، چار عورتیں ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کی اجازت کیوں دی ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں تضاد ہے (نعوذ باللہ)۔ ایک طرف وہ بہ یک وقت چار بیویوں کی اجازت دے رہا ہے، اور ساتھ ہی کہہ رہا ہے کہ تمہارے لئے ایک ہی بہتر ہے۔ دراصل ہم ”اگر تم کو ڈر ہے کہ انصاف نہ کرسکوگے۔۔۔“ کا مفہوم درست طور پر نہیں سمجھ رہے ہیں۔ آیت کے اس حصہ کو ذرا غور سے پڑھیں اور سمجھیں تو معلوم ہوگا کہ اس معاملے میں انصاف تو ہوسکتا ہے جیسا کہ آج تک بے شمار مرد لوگوں نے کیا ہے، لیکن اگر تم کو ڈر ہے کہ انصاف نہ کرسکوگے ۔۔۔ تو ایک سے زیادہ بیویاں نہ رکھو۔ ایک سے زیادہ شادی کرنا کوئی ضروری نہیں۔ 

 

اب اگر آپ صرف مزید شادی کے بندھن سے بچتے ہیں لیکن اپنا آنکھوں کا، ہاتھوں کا، پیروں کا، ذہن کا، سوچ کا زنا جاری رکھتے ہیں تو یہ صرف اور صرف آپ کے خسارہ کا معاملہ ہوگا۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ بدنیت اور بری نظر والے مرد لوگوں کو چاہے ایک بھی بیوی نہ ملے اور چاہے بہ یک وقت چار بیویاں مل جائیں، وہ اپنی کرتوتوں سے باز نہیں آئیں گے۔ خالق کائنات نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی جنسی تسکین، ذہنی تسکین، وغیرہ کیلئے ہی بنایا ہے۔ یہ مقصد مرد ایک شادی سے بھی حاصل کرسکتا ہے، اور اگر استطاعت ہو تو چار عورتوں کا کفیل بننے کا ثواب بھی پاسکتا ہے۔ کوئی مرد فطری طور پر ہی خراب ہو تو ایک شادی، دو شادی، تین شادی، چار شادی ۔۔۔ اسے کسی صورت فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور وہ خود گناہ میں ملوث ہونے کا عادی ہوجائے تو اس کیلئے دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: