شہر حیدرآباد کے مکینوں کی اکثریت کو شکایت رہتی ہے کہ بلدی عملہ چستی، پھرتی ، مستعدی اور دیانت داری سے کام نہیں کرتا۔ اس لئے شہر میں جابجا راستوں اور بستیوں میں گندگی ، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ یہ بھی فضائی ماحول اور ہوا کو پراگندہ کرنے کا موجب بنتے ہیں اور اس کے نتیجے میں شہریوں کی صحت خراب ہوتی ہے۔ ایسا کہنے والے کیا کبھی یہ بھی سوچتے ہیں کہ بلدی عملہ بھی حیدرآباد کے مکینوں میں سے ہوتا ہے اور وہ بھلے ہی کوتاہی سے کام کرتے ہیں مگر کرتے ہیں، لیکن کیا شہریوں کا فرض نہیں بنتا کہ وہ کم از کم اپنی طرف سے شہر کو گندہ کرنے اور راستوں اور محلوں میں اپنی بداخلاقی، بدتمیزی اور مکروہ عادتوں سے ماحول میں گندگی پھیلانے اور دوسروں کو بھی تکلیف دینے کا سبب نہ بنیں۔

 

میں سڑکوں اور راستوں سے گزرتے ہوئے آئے دن دیکھتا ہوں کہ لوگ جن میں اکثر نوجوان اور ادھیڑ عمر کے افراد ہوتے ہیں، ٹو وہیلرس یا پھر دیگر گاڑیوں سے سفر کے دوران سڑکوں اور راستوں پر کبھی یونہی تھوک دیتے ہیں، کبھی پان اور گٹکھا کے پیک مار دیتے ہیں، کبھی کاروں و دیگر بڑی گاڑیوں سے بے کار اشیاءسڑک یا راستے میں پھینک دیتے ہیں۔ انھیں اتنی سمجھ نہیں کہ ان کے منہ سے نکلنے والا مادہ گندے چھینٹوں کی شکل میں ہوا کے رخ سے پیچھے یا کسی بھی سمت میں دوسروں پر جاگرتے ہیں۔ سڑکوں کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ آگے چلنے والا کوئی بداخلاق ایسی حرکت کرے اور ٹریفک میں یہ جا، وہ جا ہوجائے تو پیچھے متاثرہ افراد بس غصہ ہی کرسکتے ہیں۔ 

 

اس طرح کے معاملے اخلاقیات، پرورش، اچھی تعلیم سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ان سب سے نابلد ہو تو اس کیلئے دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔ گنجان آبادی والے شہر حیدرآباد ہو کہ دنیا کی دوسری بڑی آبادی والا ہندوستان، ہمارے لئے یہ تو فی الحال ممکن نہیں کہ سڑکوں اور راستوں پر کون تھوک رہا ہے، گاڑی چلاتے ہوئے کون پیک مار رہا ہے، اسے پکڑے اور جرمانہ عائد کرے اور خوب تنبیہ کے ساتھ کونسلنگ کرے۔ کم آبادی والے ممالک جیسے سعودی عرب، امریکہ ، برطانیہ وغیرہ شاید اسی لئے سڑکوں اور راستوں کو استعمال کرنے والوں کیلئے قابل عمل قوانین بنانے میں کامیاب ہیں۔ سعودی عرب میں پان کھا کر تھوکنا تو درکنار پان رکھنے کی تک اجازت نہیں ہے۔ وہاں کہیں کہیں چوری چھپے غیرقانونی طور پر بالخصوص تارکین وطن اپنی پان کی طلب پوری کرلیتے ہیں۔

 

بہرحال، یہ نکتہ صاف ہے کہ جب تک شہریوں کو اور دیہات میں بسنے والوں کو اپنے آس پاس اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا خیال نہیں آئے گا، تب تک نہ بلدی عملہ فی الواقعی کامیاب ہوسکتا ہے، نہ قوانین گندی عادتوں کو روک سکتے ہیں۔ اگر ماحول میں تبدیل لانا ہو تو اس کی شروعات خود سے کرنی ہوگی۔ جب حیدرآبادیوں میں اپنا شہر صاف ستھرا رکھنے کا شعور بیدار ہوگا، تب ہی حیدرآباد واقعی ابھرتا دارالحکومت شہر کہلائے گا۔ ورنہ محض خواہشوں اور تمناوں سے کچھ ہونے والا نہیں۔ جب تک ہم اپنی عادتوں کے اعتبار سے گندے رہیں گے، ہمارا شہر اور ہمارا ماحول بھی گندہ ہی رہے گا۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: